میاں نواز شریف کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ لڑائی اور وقتاً فوقتاً ان کی سیاست میں پیدا شدہ بحرانوں پر نظر دوڑائی جائے تو حالیہ اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی سے پہلے بھی وہ کئی موقعوں پر اسٹیبلشمنٹ کے سامنے ‘‘میں استعفی نہیں دوں گا، ڈکٹیشن نہیں لوں گا ’’کے نعرے کے ساتھ میدان عمل میں رہے ہیں، ان کی نوے کی دہائی میں غلام اسحاق خان سے لڑائی پھر جنرل وحید کاکڑ سے پیدا ہونے والے اختلافات نے انہیں اقتدار سے باہر کر دیا مگر اس کے بعد میاں نوازشریف جب دوبارہ اقتدار میں آئے تو انہوں نے سویلین بالادستی کو یقینی بناتے ہوئے ایسے حالات پیدا کر دیئے کہ اس وقت کے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کو سویلین قیادت کے دباؤ پر اپنے منصب سے استعفیٰ دینا پڑا، اس کے بعد اسٹیبلشمنٹ سے ان کے اختلافات کی بنیاد اس وقت گہری ہوئی جب ہندوستان کے وزیراعظم واجپائی مینار پاکستان آئے اور پاکستان کو ایک بڑی حقیقت تسلیم کیا اور اس وقت پاک بھارت فرینڈ شپ کا نعرہ گونج اٹھا دراصل یہی وہ وقت تھا جب فوج نے بطور ادارہ نوازشریف سے فاصلے پیدا کرنا شروع کئے۔
دوسری جانب نوازشریف بھی فوج سے تعلقات اور پشت پناہی کی بنیاد پر بے نظیر بھٹو کے مقابلہ میں ایک بڑے لیڈر بن چکے تھے اور وہ بھی اسٹیبلشمنٹ کے داؤ پیج خوب جانتے تھے، نواز شریف کو اسٹیبلشمنٹ کی اپروچ کا حقیقی دھچکہ اس وقت لگا جب کارگل آپریشن کے بعد پاکستان کو امریکی صدر بل کلنٹن کی مدد سے بحران سے نکلنے کا راستہ دیا گیا اور پھر اس کے بعد میاں صاحب اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان نہ ختم ہونے والی لڑائی شروع ہوئی، پہلے مرحلہ میں ان کی حکومت کو برخاست کیا گیا دوسرے مرحلہ میں وہ جلاوطن ہوئے اور ان کی جماعت میں سے ایک کنگز لیگ بنائی گئی اور پاکستان کے جمہوری نظام کو دو بڑے لیڈروں نوازشریف اور بے نظیر بھٹو کے بغیر چلانے کی کوشش ہوئی مگر اس میں اسٹیبلشمنٹ بری طرح ناکام رہی، سکیورٹی رسک قرار دیئے جانے والے بے نظیر بھٹو اور نوازشریف دونوں پاکستان آئے اور دونوں کی جماعتیں برسراقتدار آئیں اور اس کے نتیجہ میں جنرل مشرف کو بوریا بستر باندھنا پڑا۔ اب موجودہ صورتحال میں نواز شریف کی مزاحمت کے بیانیہ کے پیچھے شاید وہی ذاتی تجربات ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کسی بھی پاپولر لیڈر شپ کو برداشت کرنے کو تیار نہیں اور اپنے من پسندوں کو برسر اقتدار لا کر حقیقی طاقت اپنے پاس رکھنا چاہتی ہے، موجودہ صورتحال میں سیاسی محاذ پر یہی تقسیم واضح ہوتی جا رہی ہے۔
ایک طرف نواز شریف اور ان کے اتحادی سویلین بالادستی اور ووٹ کی طاقت منوانے کیلئے سرگرم ہیں تو دوسری جانب اپوزیشن جماعتیں ریاستی اداروں کو ٹارگٹ کرنے کے بجائے ان کے ساتھ مل کر اپنے سیاسی مفادات یقینی بنانا چاہتی ہیں اور انہیں اس بات کا احساس نہیں کہ اس لڑائی میں سویلین بالادستی کا مستقبل کیا ہو گا۔ نواز شریف نے میمو گیٹ کے حوالہ سے اپنی غلطی کا اعتراف کر کے گیند ایک مرتبہ پھر پیپلز پارٹی کی کورٹ میں پھینکا ہے اور بتایا ہے کہ ہم تو اپنی غلطی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں مگر جمہوریت کے تسلسل اور سویلین قیادت کی بالادستی کیلئے سیاسی محاذ پر آپ ایسا نہ کریں جو آنے والے کل میں پیپلز پارٹی کے پاؤں کی زنجیر بن جائے، میاں نواز شریف کے احتساب اور ان کیخلاف انتقامی ہتھکنڈوں کا نتیجہ خواہ جو بھی نکلے مگر میاں نواز شریف نے اب کی بار اسٹیبلشمنٹ کو سیاسی میدان سے ایک بند گلی کی جانب دھکیل دیا ہے ، ان کا میمو گیٹ بارے موقف بتا رہا ہے کہ سیاستدان سے تو معافی مانگ سکتے ہیں مگر اسٹیبلشمنٹ کے سامنے جھکنے کو تیار نہیں اور ان کا بیان یہ بھی ظاہر کر رہا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے مخالف بیانیہ سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے بلکہ انہوں نے یہ خطرناک سیاسی وار کر کے پیپلز پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ کو اپنے اپنے طرز عمل پر سوچنے پر مجبور کیا ہے البتہ فی الحال انہوں نے ایک معاملہ پر مصلحت سے کام لیا جس میں ان سے جنرل مشرف کے بیرون ملک جانے میں جنرل راحیل شریف کے کردار کی بابت پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ وقت آنے پر یہ تفصیل بھی قوم کے سامنے رکھیں گے، درحقیقت یہی ہمارے ملک کا سیاسی المیہ ہے کہ سیاستدان پوری کہانی کا حصہ ہونے کے باوجود پورا سچ نہیں بول سکتے کیونکہ یہ اسٹیبلشمنٹ ہضم نہیں کر پائے گی ورنہ حقیقت حال سے واقف لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع، پاناما کا سیاسی بحران اور جنرل مشرف کی بیرون ملک روانگی کا آپس میں کیا تعلق ہے۔