لاہور (رپورٹ:سلمان غنی) نگران وزیراعظم کا آئینی اختیار قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کا ہے مگر دونوں جماعتوں کی سیاسی پوزیشن اس قدر متصادم ہو چکی ہے کہ یہ معاملہ پارلیمانی سطح پر طے ہونا ناممکن نظرآ رہا ہے۔
سینیٹ الیکشن اور چیئرمین سینیٹ کے معاملے پر وزیراعظم کی پوزیشن نے اتفاق رائے کے امکان کو بظاہر کافی کمزور کر دیا ہے لہذا یہ معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس جا سکتا ہے اگر منظرنامہ یہی بنا تو پھر ڈاکٹر عشرت حسین، محمد میاں سومرو اور شوکت ترین کے نام اہمیت اختیار کر جائیں گے۔
نگران حکومت کے قیام کے حوالے سے پیدا ہونے والا ماحول چاروں صوبوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ صوبوں میں بھی سیاستدان پارلیمنٹ جیسے اداروں کے بجائے غیر منتخب شخصیات اور آئینی اداروں کی جانب دیکھنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
علاوہ ازیں نگران وزیراعظم کیلئے کچھ اور نام بھی زیر بحث ہیں جن میں جسٹس وجیہہ الدین، فخر امام اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان شامل ہیں۔ جسٹس وجیہہ سے رابطہ ہوا تو ان کا کہنا تھا کہ مجھے کون ہضم کرے گا؟۔ فخر امام سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ میں اپنے حلقے میں عوام سے انتخابی رابطے میں مصروف ہوں ایسا کوئی آپشن اور رابطہ کیا گیا تو وقت آنے پر فیصلہ کروں گا جبکہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہا امریکہ سے این او سی لینا پڑے گا جو کہ ناممکن ہو گا۔