تشدد سے پاک کشمیریوں کی تحریک آزادی بھارت کیلئے درد سر بنی ہے داخلی طور پر غیر مستحکم اور منتشر پاکستان کشمیریوں کی کوئی مدد نہیں کر سکتا۔
لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) کشمیر میں آئے روز بھارتی ریاستی دہشت گردی اور کشمیریوں کے جذبہ حریت کو دبانے کی کوشش اپنے زوروں پر پہنچ چکی ہے۔ ریاستی جبرو تشدد نے اب پھر 17 معصوم کشمیریوں کی جان لے لی ہے۔ پوری وادی اور مقبوضہ کشمیر میں عام کشمیری شدید غم کا اظہار کر رہے ہیں اور حق خود ارادیت کا علم بلند کر کے اس ریاستی بربریت کے سامنے سینہ تانے کھڑے ہیں۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو ایک نئی سمت عطا ہوئی ہے اور اس وقت کشمیر میں فطری اور سیاسی مگر تشدد سے پاک خالصتاً سیاسی مزاحمتی تحریک بھارت کا درد سر بنی ہوئی ہے۔
ہندوستان کے لئے سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل میڈیا کے اس دور میں جبر و تشدد اور کشمیریوں کی نسل کشی کے واقعات کو چھپانا ایک بڑی آزمائش بن چکا ہے۔ دوسری طرف کشمیریوں کا جذبہ حریت و آزادی آج بھی ایک شعلہ جوالا بنا ہوا ہے۔ معلومات کے پھیلاؤ اور تیز رفتاری کے عالم میں دنیا کیوں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے ؟ پیلٹ گنوں سے اندھا تو کشمیریوں کو کیا جا رہا مگر عالمی دنیا کیوں اپنی بینائی کھو رہی ہے ؟ یہ وہ سوال ہے جو پاکستانی قیادت کے لئے بھی ایک تازیانہ ہے اور عالمی ضمیر کو بھی جھنجھوڑ رہا ہے۔ کشمیر میں جاری تشدد کی موجودہ لہر کا جائزہ لیا جائے تو اس کا آغاز مسلمانوں کے روحانی مرکز سعودی عرب میں ریاض کانفرنس میں ٹرمپ کے فرمودات کے بعد ہوا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کی تقریر نے دہشت گردی کو مسلمانوں سے جوڑ دیا اور ہندوستان جیسے ظالم درندے کو کشمیر میں کھل کر کھیلنے کا جواز فراہم کر دیا ہے۔ امریکہ ایک طرف تو فلسطینیوں کے قتل عام پر اسرائیل کا پشتبان ہے تو دوسری طرف ہندوستان کو کشمیر میں اور افغانستان میں انڈیا کو پاکستان کے خلاف اپنا کھیل کھیلنے کی پوری آزادی دے رکھی ہے۔
آج دنیا بھر کی مظلوم اقوام اسرائیل اور انڈیا کے بارے میں امریکہ کے طرز عمل کو دیکھ رہی ہیں اور عالمی انسانی حقوق کے چیمپئن ملک کی دوغلی اور اندھی پالیسیوں کو عالمی امن کے لئے خطرہ قرار دے رہی ہیں۔ ہندوستان کے حالیہ ظالمانہ اقدامات کا جائزہ لیا جائے تو سمجھ میں آئے گا کہ داخلی طور پر غیر مستحکم پاکستان اس کے عزائم اور ظالمانہ ریاستی جبر اور کشمیریوں کی نسل کشی کی منظم مہم کے بارے میں کوئی بھی کردار ادا کرنے سے معذور اور لاچار ہے۔ پاکستان کی افواج تو کشمیر کو آج بھی ہندوستان کی تقسیم کا نامکمل باب سمجھتی ہیں مگر پاکستان کی اندرونی داخلی سیاسی کشمکش پاکستان کو کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے مداوے کے قابل نہیں چھوڑ رہی ہے۔ لہٰذا ہمیں یہ بات اب کان کھول کر سننا ہو گی کہ سیاسی عدم استحکام پاکستان مخالف قوتوں کا ایجنڈا نمبر ایک ہے تاکہ پاکستان کو اندرونی طور پر الجھا کر کشمیر، افغانستان اور پاکستانی معیشت کی لائف لائن سی پیک پر یکطرفہ صورتحال اور غیر متوقع محاذ کھول دیا جائے اور من چاہے نتائج کے ذریعے پاکستان کو دست نگر پوزیشن پر واپس لایا جائے۔ پاکستان میں رائے عامہ بھی سیاسی عدم استحکام پر اتنی تقسیم ہو چکی ہے کہ کشمیر کا تنازع پاکستان میں اپنی ترجیح کھو رہا ہے اور یہی دشمن کا سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔
ایک مضبوط اور داخلی طور پر مستحکم پاکستان ہی مذاکرات کی میز پر ہندوستان سے کشمیر کا تنازع حل کر سکتا ہے ۔ اس لیے پاکستان میں غیر ضروری الجھاؤ اور داخلی کشمکش کو عالمی طاقتیں بھی ہوا دے رہی ہیں کہ رائے عامہ پوری یکسوئی سے ہندوستان اور کشمیر و افغانستان کے امن پر اکٹھی نہ ہو۔ یہ کشمیریوں کی مزید بدقسمتی ہو گی کہ پاکستان میں عوام اور سیاسی قوتیں تو مسئلہ کشمیر پر خاموش رہیں مگر عالمی سطح پر دہشت گرد سمجھے جانے والے عناصر اس مسئلہ پر پاکستان میں آواز اٹھائیں۔