'عدالتیں نظام نہیں بناتیں ،کام نہ ہونے پر چیف جسٹس کو آگے آنا پڑا'

Last Updated On 02 April,2018 09:17 am

حدود سے تجاوز کرنے پر ادارے تنقید کا نشانہ بنتے ہیں،سلمان غنی، پروگرام تھنک ٹینک

لاہور: (دنیا نیوز) دنیا نیوز کے پروگرام تھینک ٹینک میں تجزیہ کاروں نے کہا کہ چیف جسٹس نے عام آدمی کے مسائل اٹھائے ۔ حکمرانوں کے کرنے والے کام بھی انہوں نے کیے ۔ ہسپتالوں اور اداروں کا بیڑا غرق کر دیا گیا۔ سب سے بڑے صوبے کے سربراہ اپنے علاج کیلئے لندن جاتے ہیں اور یہاں گڈ گورننس کا رونا روتے ہیں۔

سینئر تجزیہ کار ہارون الرشید نے میزبان عائشہ ناز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کا کام ملکی دفاع ہوتا ہے۔ لا اینڈ آرڈر، ٹیکس جمع کرنا حکومتی کام ہیں۔ یہ بڑے لوگوں سے ٹیکس لیتے ہی نہیں۔ پینے کا پانی، تعلیم، ہسپتالوں کا نظام درست کرنے میں حکمران نا کام ہو چکے ہیں۔ عدالتیں نظام نہیں بنایا کرتیں نہ ہی ججز لگاتی ہیں۔ یہ حکومتوں کا م ہوتا ہے ۔ اگر یہ کام ان لوگوں نے نہیں کئے تو کسی کو تو کرنا تھے اس لیے چیف جسٹس کو آگے آنا پڑا۔ معروف کالم نگار، تجزیہ کار ایاز امیر نے کہا حکمرانوں کے کرنے والے کام بھی چیف جسٹس نے کیے ۔ ہسپتالوں اور اداروں کا بیڑا غرق کر دیا گیا یہ صرف تختیاں لگا رہے ہیں ۔ سب سے بڑے صوبے کے سربراہ اپنے علاج کیلئے لندن جاتے ہیں اور یہاں گڈ گورننس کا رونا روتے ہیں۔ چیف جسٹس عوام کے مسائل جانتے ہیں ۔ حکمران صرف ڈرامہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔

تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری نے کہا پاکستان خوراک میں خود کفیل ملک ہے۔ پھر بھی لوگ بھوکے سوتے ہیں ۔ عام آدمی کو طبی سہولیات میسر نہیں۔ چیف جسٹس کو ایک سال سے زیادہ عرصہ ملا، اتنا عرصہ پہلے کسی کو نہیں ملا۔ اس کی وجہ سے وہ زیادہ ایکٹو ہوئے۔ سیاسی تجزیہ کار اور روزنامہ دنیا کے گروپ ایگزیکٹو ایڈیٹر سلمان غنی نے کہا ہے کہ سوال یہ نہیں ہے کہ عدلیہ مداخلت کیوں کرتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ مخصوص حالات میں یہ مداخلت کیوں ہوتی ہے۔ اس کی ٹائمنگ سب سے اہم ہے۔ پنجاب کی صورتحال دوسرے صوبوں سے بہت بہتر ہے۔ آئین میں تمام اداروں کی حدود متعین ہیں، حدود سے تجاوز کرنے پر ادارے تنقید کا نشانہ بنتے ہیں۔ چیف جسٹس صاحب کو سول کورٹ کا بھی دورہ کرنا چاہیے ۔ کے پی کے حکومت ڈلیور نہیں کر سکی۔سلمان غنی نے کہا عدلیہ ایسی ہو جس کے فیصلے بولیں۔

ڈاکٹر حسن عسکری نے کہا کہ اداروں میں جہاں خودمختاری ہے ، وہاں ایک دوسرے پر انحصار بھی ہے۔عدلیہ کا اپنا دائرہ اختیار ضرور ہے مگر ساتھ ہی آرٹیکل 184 تھری ، 187، 190 بھی ہیں جس میں ان کا دائرہ اختیار دوسرے اداروں کی جانب جاتا ہے۔ آئین نے کوئی دیواریں کھڑی نہیں کیں جس سے ادارے باہر نکل ہی نہیں سکتے۔ ایاز امیر نے کہا کہ پیپلزپارٹی نے ایک کام یہ کیا تھا کہ نام نہاد مفاہمت اور میثاق جمہوریت کے نام پر حدیبیہ سمیت شریف خاندان کے خلاف نیب میں تمام کیسز ختم کرا دئیے تھے۔ پنجاب حکومت بھی ن لیگ کو آصف زرداری کی وجہ سے ملی۔ اگر شریف خاندان میں ظرف ہو تو بلاول ہاؤس جاکر شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ 2008 میں ہر مسئلے کا حل آزاد عدلیہ کو قرار دینے والے شریف خاندان کو آج مرچیں کیوں لگ رہی ہیں۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کو دیگر پارٹیوں کیساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنا پڑے گی۔ ہارون الرشید نے کہا کہ آزاد عدلیہ کی تحریک میں قربانی وکلا نے دی، عوامی لہر دیکھ کر سیاسی جماعتیں بھی اس میں شامل ہو گئیں۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کی بات تب کی جائے جب حکمران پارلیمنٹ کو اہمیت دیں۔