لاہور: (ڈاکٹر مقرب اکبر ) 2013 میں جب پیپلزپارٹی کی حکومت ختم ہونے والی تھی، تب بھی جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کی باتیں شروع کی گئیں۔ اب جبکہ اسمبلیوں کی مدت ختم ہونے میں ایک ماہ رہ گیا ہے، یہی باتیں دوبارہ چھیڑ دی گئی ہیں، ٹائمنگ شک و شبہات پیدا کرنے کیلئے کافی ہے، اگر وہ سنجیدہ ہوتے تو انہیں تحریک بہت پہلے شروع کر دینی چاہیے تھی۔ ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ایک تحریک چل رہی ہے کہ مسلم لیگ ن میں توڑ پھوڑ ہو، اس کے ارکان ٹوٹیں، اس کیلئے انہیں معقول وجہ چاہئے تاکہ لوگوں کو باور کرایا جا سکے کہ ارکان اسمبلی نے کسی وجہ سے ن لیگ کو چھوڑا ہے، بلاوجہ نہیں۔
جنوبی پنجاب صوبے کا مطالبہ بڑی حد تک جائز بھی ہے، مگر اگر یہ کام پہلے کر تے تب انہیں عوام میں پذیرائی مل سکتی تھی۔ کیونکہ یہ نعرہ نیا نہیں، پہلے بھی کئی مرتبہ اٹھایا گیا ہے، پیپلزپارٹی کے علاوہ مشرف دور کے آخری دنوں میں بھی جنوبی پنجاب صوبے کی بات کی گئی تھی۔ اس وقت جنوبی پنجاب صوبے کی بات کرنے والی تمام شخصیات اپنے زور پر منتخب ہوتی ہیں، اس لئے اس وقت مقصد مسلم لیگ ن کی توڑ پھوڑ دکھائی دیتا ہے تاکہ آنے والے وقت میں ایک مخلوط حکومت بنائی جا سکے، ایک کنگز پارٹی وجود میں آئے۔ تاہم ان شخصیات نے عوام کو دکھانا ہے کہ وہ کنگز پارٹی کیلئے نہیں، بلکہ ایک ٹھوس مطالبے کی بنیاد پر مسلم لیگ ن سے علیحدہ ہوئے ہیں۔
جنوبی پنجاب صوبہ اکثریت کا مطالبہ نہیں ، صرف کچھ لوگوں کی خواہش ہے۔ جنوبی پنجاب صوبے کے بارے میں مختلف آرا ہیں کہ سرائیکی صوبہ ہو یا ریاستی صوبہ ہو، پھر دارالحکومت ملتان ہو گا کہ بہاولپور، یا پھر رحیم یار خان۔ الگ صوبے کے قیام پر مفادات میں ٹکراؤ پایا جاتا ہے۔