اسلام آباد: (روزنامہ دنیا) 13ارکان چھٹی کی درخواست دیئے بغیر مختلف اوقات میں غیرحاضر رہے ، پارلیمانی قواعد و ضوابط کا سختی سے اطلاق نہ ہونے اور سیاسی ر ہنماؤں کی پارلیمانی کارروائی میں عدم دلچسپی سے حاضری کی شرح میں کمی ہوئی۔
فری اینڈ فیئرالیکشن نیٹ ورک کے مطابق گزشتہ پانچ سالوں کے دوران قومی اسمبلی میں اراکین کی اوسط حاضری کی شرح میں تیرہ فیصد کمی ہوئی ہے ۔ ممکنہ طور پر پارلیمانی قواعد و ضوابط کا سختی سے اطلاق نہ کیا جانا اور سیاسی ر ہنماؤں کی پارلیمانی کارروائی میں عدم دلچسپی حاضری کی گرتی ہوئی شرح کا سبب ہوسکتی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پہلے پارلیمانی سال کے دوران ایوانِ زیریں کی ہر نشست میں اوسط حاضری 65 فیصد یعنی 222 اراکین تھی جو کہ پانچویں پارلیمانی سال کے دوران گر کر 56 فیصد یعنی 193 اراکین فی نشست پر آگئی ہے۔ اسی طرح موجودہ قومی اسمبلی کے جون 2013 میں ہونے والے پہلے اجلاس کے دوران اوسطاً ہر نشست میں 91 فیصد یعنی 311 اراکین موجود تھے جبکہ سولہ مارچ 2018 کو ختم ہونے والے 54ویں اجلاس میں اوسطاً 56 فیصد یعنی 192 اراکین نے ہر نشست میں شرکت کی۔اوسطاً اسمبلی کی ہر نشست میں 60 فیصد یعنی 204 اراکین نے شرکت کی۔
قومی اسمبلی کی نشست وار حاضری کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 54 اجلاسوں کی 468 نشستوں میں سے صرف پانچ نشستیں ایسی تھیں جن میں 300 سے زائد اراکین حاضر پائے گئے تھے جبکہ 42 نشستوں میں حاضری 251 اراکین سے 300 اراکین کے درمیان رہی، 212 نشستوں میں 201 سے 250 تک اراکین نے شرکت کی، 174 نشستوں میں حاضری 151 سے 200 اراکین تک رہی اور 33 نشستوں میں 101 سے 150 اراکین حاضر ہوئے۔
موجودہ اسمبلی کے دور میں اب تک دو نشستیں ایسی تھیں جن میں سرکاری ریکارڈ کے مطابق اراکین کی تعداد 100 سے کم رہی۔ کم از کم تیرہ اراکین قومی اسمبلی نے گزشتہ پانچ سالوں کے دوران چھٹی کی درخواست دیئے بغیر مختلف اوقات میں کارروائی سے غیرحاضر رہے ہیں۔ ان اراکین میں وفاقی وزرا احسن اقبال، خواجہ آصف، شیخ آفتاب، وزیر مملکت عثمان ابراہیم، سپیکر سردار ایاز صادق اور ڈپٹی سپیکر مرتضٰی جاوید عباسی شامل ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ فافن کی سفارش ہے کہ ایوان میں اراکین کی حاضری کو بہتر بنانے کے لیے قومی اسمبلی کے قواعد میں ضروری ترامیم کی جائیں اور قواعد کا یکساں و منصفانہ اطلاق یقینی بنایا جائے ۔ اسی طرح اجلاس سے غیرحاضر رہنے والے وزرا کے خلاف کارروائی کے لیے بھی قواعد میں ترامیم کی ضرورت ہے۔