لاہور: (تجزیہ :سلمان غنی) سابق وزیراعظم نوازشریف اور جہانگیر ترین عدالت عظمٰی کے فیصلے کے تحت پارلیمانی سیاست سے تاحیات آؤٹ ہو گئے۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے مطابق آرٹیکل 62 ون کے تحت نااہلی تاحیات ہو گی جو شخص صادق اور امین نہ رہے اسے آئین پاکستان کے تحت اہل قرار نہیں دیا جا سکتا، مذکورہ نااہلی کے حوالہ سے خود مسلم لیگ ن اور سابق وزیراعظم نوازشریف بھی اسی فیصلہ کا امکان ظاہر کر رہے تھے لہذا اس فیصلہ کی روشنی میں اب یہ بات تو واضح ہو گئی کہ سابق وزیراعظم نوازشریف کی پارلیمانی اور حکومتی سیاست کا خاتمہ ہو گیا۔اب ملک میں ان کا کوئی سیاسی و عوامی کردار نہیں ہو گا اور اس فیصلہ کے قومی سیاست اور خود مسلم لیگ ن پر کیا اثرات ہونگے۔
جہاں تک فیصلہ کا سوال ہے تو خود سابق وزیراعظم نوازشریف یہ کہتے نظر آ رہے تھے کہ انہیں ہمیشہ کیلئے نااہل کیا جا رہا ہے البتہ قانونی حلقوں میں یہ رائے تھی کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون کے تحت نااہلی کی مدت کا تعین کرنا عدالتوں کا نہیں پارلیمنٹ کا کام ہے جبکہ یہ رائے بھی تھی کہ ہو سکتا ہے نااہلی کی مدت پانچ یا دس سال کر دی جائے لیکن عدالت نے ماضی کے اس طرح کے مقدمات میں تاعمر نااہلی کی روایت کو ہی برقرار رکھا اور اب مسلم لیگ ن کی جانب سے یقیناً اس عدالتی فیصلہ کو بھی ٹارگٹ کیا جائے گا کیونکہ اس فیصلہ کے تحت ایک طرح سے نوازشریف کے مستقبل کے سیاسی کردار کو ختم کیا گیا ہے اور مستقبل میں بھی ان کی اہلیت کے حوالہ سے کسی قسم کی قانون سازی کا دروازہ بند ہو گیا، فیصلہ کے حوالہ سے سیاسی مخالفین کے ردعمل سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں نوازشریف کی مستقل بنیادوں پر نااہلی کا عمل ان کے سیاسی مستقبل کی راہیں کھولے گا مگر فیصلہ کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ ایک مقبول سیاستدان کی ہمیشہ کیلئے پارلیمانی سیاست سے نااہلی کا عمل مستقبل کی سیاست میں بھی سیاستدانوں پر ایک مستقل لٹکتی تلوار ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ بغیر کسی ٹرائل کے فیصلہ دیا جا سکتا ہے اور ایسے کسی سیاستدان سے مستقل چھٹکارا حاصل ہو گا۔
سابق وزیراعظم نوازشریف اور ان کی جماعت کیلئے یہ فیصلہ خصوصاً اس آئینی شق کے تحت جو خود ضیاالحق کی جانب سے آئین پاکستان میں شامل کی گئی تھی اور پیپلز پارٹی نے ان شقوں کو نکالنے کیلئے زور دیا تھا اور مسلم لیگ ن نے بوجوہ ان آئینی شقوں کو آئین کا حصہ رکھنے پر اصرار کیا تھا خود ان کیلئے لمحہ فکریہ بن گئی ، ان کی اپنی لیڈر شپ اس کی زد میں آ گئی اور فی الحال مستقبل کی پارلیمانی سیاست میں ایسے امکانات کم ہی نظر آ رہے ہیں کہ آئین پاکستان میں موجود آرٹیکل 62 اور 63 پر نظرثانی کرتے ہوئے نااہلی کی ان شقوں کا خاتمہ کیا جا سکے جہاں تک مذکورہ فیصلہ کے بعد خود مسلم لیگ ن کی سیاست اور آنے والے انتخابات پر اس کے اثرات کا تعلق ہے تو مذکورہ فیصلہ کے اثرات ن لیگ اور نوازشریف کی مقبولیت پر ہوں گے اس حوالہ سے تو دو آراموجود ہیں مگر احتساب عدالت سے اگر سابق وزیراعظم نوازشریف کو سزا ہوتی ہے اور انہیں جیل جانا پڑتا ہے تو اس کے اثرات ضرور ہوں گے ، ایک طرف خود ان کی پارٹی کے اندر نوازشریف کی قیادت سے کمٹمنٹ کا اظہار کرنیوالوں میں مایوسی کی لہر آئے گی تو دوسری جانب عوامی سطح پر ان کیلئے ہمدردی کی لہر پیدا ہو سکتی ہے مسلم لیگ ن کی سیاست میں نوازشریف کے سیاسی کردار اور ان کی جدوجہد سے کسی بھی طرح صرف نظر نہیں برتاجا سکتا، نوازشریف کی قیادت اور ان کی سیاست کے باعث ہی مسلم لیگ ن کا ڈنکا ملک بھر میں نہیں تو پنجاب میں ضرور بجتا رہا ہے اور ان کی ٹکٹ کو جیت کا واضح سگنل سمجھا جاتا تھا۔
لہذا اب نوازشریف کی پارلیمانی سیاست سے نااہلی کے بعد شہبازشریف کا اصل کردار شروع ہو گا اور یہ ان کی صلاحیتوں کا امتحان بھی بنے گا کہ وہ کس طرح جماعت کو متحد رکھتے ہوئے انتخابی میدان میں اترتے ہیں کیونکہ آج بھی وہ رہنمائی کیلئے نوازشریف کی جانب دیکھتے ہیں اور جماعت کے صدر اور وزیراعظم کے امیدوار کیلئے ان کی نامزدگی کے باوجود جماعت میں اصل طاقت نوازشریف کی ذات کو سمجھا جاتا ہے ،جہاں تک اس فیصلے کے اثرات کا تعلق ہے تو پہلی بات ہمیں ذہن میں رکھنی پڑے گی کہ اس سے پہلے نوازشریف بطور ن لیگ قائد اور ان کی سیاسی تاریخ یہ کہتی ہے کہ وہ ہمیشہ ایک ڈھیلے ڈھالے اور سلجھے ہوئے انداز میں سیاست کرتے رہے ہیں۔ ہمیشہ اپنی جماعت میں اپنے اردگرد سیاسی قیادت کو ساتھ لے کر چلتے تھے مگر ان کا یہ تاثر کبھی بھی نہ بن سکا کہ وہ ایک تیزطرار فعال ترین حکمران رہے ہوں مگر اس سب کے باوجود وہ نہایت مقبول سیاستدان رہے ہیں اور پاکستانی سیاست میں 1988 کے بعد ان کی قیادت کے سحر میں مسلم لیگی ذہن نے سیاست کو ترجیح دی۔ ن لیگ کا سیاسی محاذ پر مقابلہ سیاسی جماعتوں سے نہیں اسٹیبلشمنٹ سے ہو گا۔