لاہور: (روزنامہ دنیا) گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان کا یہ خواب ہے کہ گوادر کی اہم سٹریٹجک بندرگاہ کو ڈیوٹی فری اور فری اکنامک زون میں تبدیل کر دیا جائے ۔ کیا پینے کے صاف پانی کی قلت کا شکار یہ پاکستانی بندرگاہ دبئی کا مقابلہ کر سکے گی؟۔ پاکستان اور چین مل کر ایران کے قریب اور خلیج فارس کے دہانے پر واقع اس بندرگاہ کو علاقائی، تجارتی، صنعتی اور جہاز رانی کا مرکز بنانا چاہتے ہیں۔ یہ بندرگاہ چین پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) کا حصہ ہے۔ سی پیک کے ذریعے چین کو مشرق وسطیٰ تک محفوظ اور مختصر ترین تجارتی راستہ حاصل ہو جائے گا اور پاکستانی معیشت بھی اس سے فائدہ اٹھا سکے گی۔فی الحال پاکستان کے اس ‘نئے دبئی’ کی اصل دبئی سے صرف ایک مماثلت ہے اور وہ یہ کہ یہاں بھی پانی کی شدید کمی ہے۔
ایک مقامی صحافی ساجد بلوچ کا تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا گزشتہ تین برسوں سے یہاں بارش نہیں ہوئی۔بلوچستان کی صوبائی حکومت کے زیر انتظام گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے عبدالرحیم کا کہنا تھا کہ ‘گوادر کی پیاس’ میں موسمیاتی تبدیلیوں کا بھی بڑا کردار ہے ۔ ان کے مطابق اس وقت گوادر کو پانی کے شدید مسائل کا سامنا ہے ۔گوادر کے مضافات میں واقع آنکارا کور ڈیم میں پانی کے ذخائر دو برس پہلے ہی خشک ہو گئے تھے اور اب پانی دور دراز کے علاقوں سے لایا جا رہا ہے ۔ دور سے لایا جانے والا کچھ پانی تو اس قدر آلودہ ہوتا ہے کہ اس سے ہیپاٹائٹس جیسی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ عبدالرحیم کے مطابق زیر زمین پانی بھی نہیں نکالا جا سکتا کیوں کہ زیر زمین پانی نمکین ہو چکا ہے ۔فی الحال گوادر کی آبادی ایک لاکھ نفوس پر مشتمل ہے لیکن اندازوں کے مطابق 2020 تک یہ آبادی بڑھ کر پانچ لاکھ تک پہنچ جائے گی۔ گوادر میں معاشی سرگرمیوں سے پہلے مقامی آبادی کا انحصار زیادہ تر ماہی گیری پر تھا اور حکومت کے ان بڑے منصوبوں سے انہیں ابھی تک براہ راست کم ہی فائدہ پہنچا ہے۔
ایک مقامی ماہی گیر رسول بخش کا کہنا تھا ہم پیاس سے مر رہے ہیں، بجلی کبھی ہوتی ہے اور کبھی نہیں ہوتی، علاقے میں ڈاکٹر نہیں ہیں اور ہر طرف کوڑا کرکٹ بکھرا نظر آتا ہے ، کوئی اسے اٹھانے والا نہیں ہے ۔ ان کا مزید کہنا تھا پہلے ہمارے یہ مسائل حل کریں اور پھر اسے دبئی بنانے کا خواب دیکھیں۔اس شہر کے زیادہ تر لوگ پانی ان ٹینکروں سے خریدتے ہیں، جو دو گھنٹے کی مسافت پر واقع میرانی ڈیم سے بھر کر لائے جاتے ہیں۔ رسول بخش کے مطابق یہ ٹینکر بھی ایک ماہ میں دو یا تین مرتبہ ہی ان کے علاقے میں آتے ہیں۔ صوبے میں منصوبہ بندی اور ترقیاتی امور کے شعبے کے سیکرٹری محمد علی کاکڑ کے مطابق گوادر سٹی کو روزانہ ساڑھے چھ ملین گیلن پانی کی ضرورت ہے لیکن ٹینکر صرف دو ملین گیلن پانی ہی فراہم کر پاتے ہیں ۔پانی کی شدید قلت پر قابو پانے کے لیے چینی ماہرین کی مدد سے اس علاقے میں سمندری پانی صاف کرنے کے دو پلانٹ تعمیر کیے گئے ہیں۔ چھوٹا پلانٹ روزانہ دو لاکھ گیلن پینے کا صاف پانی فراہم کر سکتا ہے جبکہ حال ہی میں تکمیل پانے والا دوسرا پلانٹ ڈیوٹی فری زون میں تعمیر کیا گیا ہے اور یہ روزانہ تقریباً چار لاکھ گیلن صاف پانی فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل ساجد بلوچ کے مطابق ان دونوں پلانٹس کا انحصار جنریٹرز سے حاصل کردہ بجلی پر ہے اور انہیں چلانے کے لیے گوادر میں بجلی بھی ناکافی ہے ۔ کچھ ماہی گیروں کے مطابق اب وہ پانی بندرگاہ سے خریدتے ہیں اور تین لیٹر پانی کے لیے قریب پچاس روپے ادا کرتے ہیں۔بندرگاہ کی آپریشنز اتھارٹی کے ڈائریکٹر گل محمد کے مطابق ہم ڈیوٹی فری زون میں بھی بڑے پلانٹ سے اٹھانوے پیسے فی گیلن پانی فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن اس کے لیے بلوچستان حکومت کو ہمارے ساتھ معاہدہ کرنا ہوگا۔ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے عبدالرحیم کے مطابق صوبائی حکومت کی طرف سے معاہدہ نہ کرنے کہ وجہ بارش کی امید ہے ۔ صوبائی حکام کے مطابق بارش ہونے سے آنکارا کور ڈیم دوبارہ بھر جائے گا۔فوج بھی متحدہ عرب امارات اور سوئٹزرلینڈ کی مدد سے اس علاقے میں پانی صاف کرنے کا ایک پلانٹ تعمیر کر رہی ہے جو اس علاقے کو روزانہ چوالیس لاکھ گیلن پانی فراہم کر سکے گا۔ پاکستانی فوج کے مطابق علاقے میں بہتر سہولیات اور صاف پانی کی فراہمی سے مقامی سطح پر حمایت حاصل کی جا سکتی ہے ۔پاکستانی فوج نے مقامی آبادی کے دل جیتنے کے لیے یہاں ماہر ڈاکٹر بھی تعینات کیے ہیں، جو مقامی ہسپتالوں میں کام کر رہے ہیں۔ ایک نئی سڑک سے بندرگاہ کو مکران ساحلی ہائی وے سے جوڑ دیا جائے گا جبکہ گوادر کا زیر تعمیر ایئر پورٹ مستقبل میں پاکستان کا سب سے بڑا ایئر پورٹ ہو گا۔گوادر میں بجلی کی بلاتعطل فراہمی کے لیے چائنہ پاور کمپنی تین سو میگا واٹ کا ایک پلانٹ بھی لگا رہی ہے جبکہ اس علاقے میں سیاحوں کی آمد و رفت کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے ۔ بندرگاہ کے سکیورٹی افسر منیر احمد کا کہنا تھا گزشتہ دو برسوں کے دوران گوادر کی سکیورٹی میں بہتری آئی ہے ۔ اگر حالیہ عرصے میں ہونے والی پیش رفت کو دیکھا جائے تو ‘نیا دبئی’ تعمیر کرنے کا خواب ایک عشرے یا اس سے کچھ زائد عرصے میں اپنی تعبیر سے ہمکنار ہو جائے گا۔