لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) سابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے سیاسی معاملات اور انکشافات کے حوالے سے نادیدہ قوتوں اور خلائی مخلوق کی گردان اور اپنے سینے میں پڑے بعض اہم معاملات کو بیان کر نے کی بات نے بہت سے سوالات کھڑے کر دیئے ہیں لیکن کوئی بھی ان کے جوابات دینے کی پوزیشن میں نہیں، البتہ ایک کنفیوژن ہے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی جس نے بعض ریاستی اداروں کی ساکھ متاثر ضرور ہو رہی ہے بعض اوقات دیکھنا پڑے گا کہ آخر نواز شریف ایسا کیوں کہہ رہے ہیں کیا وہ اپنے سینے میں پڑے راز فاش کر پائیں گے اور کیا ملکی سیاست میں کسی خلائی یا فضائی مخلوق کا کوئی کردار رہا ہے۔
جہاں تک میاں نواز شریف کی جانب سے وقفہ وقفہ سے کئے جانے والے اس اعلان کا تعلق ہے کہ ان کا کسی پائے میں مقابلہ آصف زرداری یا عمران خان سے نہیں نادیدہ قوتوں اور خلائی مخلوق سے ہے تو ایسا ملکی سیاست میں چلتا رہتا ہے کیونکہ قومی سیاست میں پانامہ لیکس آنے کے بعد سے اس صورتحال میں محاذ آرائی اور تناؤ بڑھا ہے اور خصوصاً پانامہ لیکس کے حوالے سے پٹیشن مسترد ہونے کے بعد اس کو اکاموڈیٹ کرنے کے عمل بارے مسلم لیگ ن اور ان کی حکومت کے تحفظات آ رہے ہیں جبکہ خود میاں نواز شریف کا کہنا تھا کہ وہ اور ان کے اہل خانہ اس حوالے سے عدالت عظمی کے سامنے جوابدہ ہونے کے لئے تیار ہیں۔
عدالت عظمی کی جانب سے پانامہ لیکس کی سماعت اور جے آئی ٹی کے عمل کے سحر میں میاں نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے خلاف مقدمات اور احتساب عدالت میں ہونے والی سماعت کے دوران پیدا ہونے والی صورتحال خود ان کی سیاست اور حکومت کے لئے اچھی نہیں رہی اور خود جماعتی ذمہ دار اور کارکن مختلف اوقات میں جب اپنی لیڈرشپ سے پوچھے اور اس حوالے سے الجھتے نظر آتے ہیں کہ جب پانامہ میں آپ کا نام سنا تھا تو پھر آپ ٹارگٹ کیوں ہوئے جس پر نواز شریف یہ کہہ کر انہیں مطمئن کرتے نظر آتے ہیں کہ میرے سینے میں بہت سے راز دفن ہیں جو وقت آنے پر فاش کروں گا لیکن قومی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو ذوالفقار علی بھٹوسے شاہد خاقان عباسی تک سارے وزیراعظم بہت سے رازوں کے امین تھے اور ہیں مگر وہ اس حوالے سے بات بیانات تک تو کرتے نظر آتے ہیں مگر کسی ایسی بات کو زبان پر لانے کے لئے تیارنہیں ہوتے کہ جس سے ریاستی اداروں کی ساکھ متاثر ہوتی ہو۔
خود عمران خان نے بھی 2013ء کے انتخابی عمل میں فوج کے کردار کی بات کی ہے اس سے قبل 2008ء کے انتخابات کے حوالے سے جو شجاعت حسین نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ انتخابات کے روز نتائج سے قبل جنرل مشرف نے انہیں ٹیلی فون پر بتایا کہ آپ بیس پچیس نشستیں حاصل کریں گے لیکن آپ نے اس پر شور بھی نہیں ڈالنا خود 2013ء کا انتخابی عمل قوم کے سامنے ہے ۔اب سابق وزیراعظم نواز شریف کے بعد موجودہ وزیراعظم عباسی کی جانب سے یہ کہنا کہ انتخابات خلائی مخلوق کرائے گی مگر پھر بھی انتخابات میں حصہ لیں گے یہ ظاہر کر رہا ہے کہ اہم منصب پر رہنے والے بہت کچھ جانتے ہیں مگر پھر سب اپنے اداروں کی پردہ داری پر گامزن ہیں ۔تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے شخص کو بار بار یہ کہنے پر مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ اپنے سینے میں پڑے راز فارش کردے گا لیکن ملکی سیاسی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ سیاستدان وزیراعظم پھانسی کے پھندے تک جاپہنچتا ہے مگر قومی راز فاش نہیں کرتا انہیں اقتدار سے زبردستی ہٹا دیا جاتا ہے مگر پھر بھی اپنے لب نہیں کھولتا ،خدانخواستہ ضد اور ہٹ دھرمی کا سلسلہ جاری رہا تو اس کا نقصان سیاستدانوں یا ریاستی اداروں کے ذمہ داروں کو ہو نہ ہو لیکن پاکستان کو ضرور ہو گا اور انہیں اس پر جواب دہ ہونا پڑے گا۔