لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) وزیراعلیٰ شہبازشریف کے نیب کے کردار پر تحفظات کے اظہار پر چیئرمین نیب جاوید اقبال کی وضاحت سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ چیئرمین نیب اپنے اور نیب کے کردار کے حوالے سے بہت حساس ہیں، وہ اس کی ساکھ کی بحالی کیلئے موثر نتائج کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے سرگرم عمل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میاں شہبازشریف کے بیان کے جواب میں جہاں انہوں نے ایک جانب یہ کہا کہ نیب کا سورج صرف پنجاب نہیں پورے پاکستان میں چمک رہا ہے تو دوسری جانب انہوں نے اپنے محدود دور میں نیب کی کارکردگی کے بارے میں بتایا کہ اکتوبر 2017ء سے اب تک 226 افراد کو گرفتار کیا گیا، 872 شکایات کی جانچ پڑتال ہوئی، 403 انکوائریاں اور 82 انویسٹی گیشنز کی منظوری دی گئی۔ 217 بدعنوانی کے ریفرنس متعلقہ عدالتوں میں دائر ہوئے اور 39 افراد کو قانون کے مطابق سزا ملی، اس لیے جائزہ لینا پڑے گا کہ کیا واقعتا نیب کا کردار غیرجانبدارانہ ہے ، کیا نیب کی ساکھ کو بحال کرتے ہوئے کرپٹ عناصر کے گرد شکنجہ کسا جا رہا ہے۔
نیب کے ادارے کو مخصوص عناصر جماعت یا صوبہ کے اداروں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے یا واقعتا نیب کو اس کے اصل کردار اور مقاصد تک محدود رکھتے ہوئے شکایات کی تحقیقات اور کرپشن کے ذمہ داران کی گرفت پر وسیع تر کیا جا رہا ہے۔ حقائق کا جائزہ لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ نیب کے ادارے کے قیام کے وقت سے ہی ادارے کی ساکھ ایک بڑا مسئلہ رہی ہے اور حکومتیں اسے اپنے سیاسی مفادات کیلئے استعمال کرتی رہی ہیں۔ جس کی بڑی مثال خود ادارے کے اولین چیئرمین جنرل شاہد عزیز، جنرل امجد کے وہ بیانات ہیں جن میں یہ اعتراف کیا گیا کہ ان پر اس وقت کی حکومت کا بعض افراد کے خلاف تحقیقات روکنے کیلئے دباؤ تھا اور بعدازاں آنے والی حکومتیں اس ادارے کو کرپشن اور روزگار کے سدباب کیلئے بروئے کار لانے کے بجائے اپنے سیاسی مخالفین کو دبانے اور اپنے سیاسی مفادات کیلئے استعمال کرتی دکھائی دیں۔
خصوصاً ماضی قریب میں نیب کا کردار کرپٹ عناصر کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے بجائے انہیں ریلیف مہیا کرنے اور ان کی کرپشن کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کیلئے تھا، یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں نیب حکومت کے سیاسی مخالفین کی زد میں رہا۔ خود پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کے حوالے سے عام تاثر یہ تھا کہ وہ خود کرپشن اور لوٹ مار کا قلع قمع چاہتے ہیں اور اس کے خلاف سرگرم ہیں اور دوسرا یہ کہ وہ کسی بھی کرپٹ شخص کا تحفظ نہیں کرتے اور نہ ہی اسے بچانے کے عمل میں فریق بنتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب پنجاب تک نیب کا کردار وسیع ہوا اور خصوصاً پنجاب کے ایک اہم بیوروکریٹ احد خان چیمہ پر ہاتھ پڑا اور اس پر پنجاب حکومت اور انتظامی مشینری کا شدید ردعمل سامنے آیا تو اس سے پنجاب کے وزیراعلیٰ شہبازشریف کی پوزیشن کمزور ہوئی اور اس کے بعد سے اب تک یہ سلسلہ جاری ہے جس بنا پر پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کو کہنا پڑا کہ نیب کا سورج پنجاب کی دھرتی پر پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہے اور طاقتور اداروں کی نظریں پنجاب پر ہیں۔
جہاں تک چیئرمین نیب جاوید اقبال اور ان کے دور میں نیب کے کردار کا تعلق ہے تو لگتا یوں ہے کہ انہیں اپنی اور اپنے ادارے کی ساکھ کا چیلنج درپیش ہے اور وہ کچھ کرتے نظر آ رہے ہیں۔ اس صورتحال میں تو ان کا حوصلہ بڑھانا چاہیے نہ کہ ان کی حیثیت اور ادارے کو ٹارگٹ کرنا چاہیے۔ ملک میں احتساب کا کلچر پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاہم احتساب کا عمل دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کے مترادف نہیں ہونا چاہیے۔ بدقسمتی سے ملک میں احتساب ایک مثبت اور تعمیری عمل بننے کے بجائے ایک منفی اور نیچا دکھانے کا عمل بن کر رہ گیا ہے۔ کرپشن آج ہمارے معاشرے اور ریاست کیلئے ناسور بنی نظر آ رہی ہے۔