لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) سابق وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کے بعد مسلم لیگ ن کے صدر وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے بھی لڑائی محاذ آرائی سے اجتناب برتنے کا موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ یہ صورتحال اور مسائل کا حل نہیں، ن لیگ اپنی کارکردگی کی بنا پر الیکشن میں حصہ لے گی۔ اسٹیبلشمنٹ کا مقابلہ ہم صرف اپنی کارکردگی سے ہی کر سکتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے مسلم لیگ ن کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کے دوران کیا۔
اجلاس میں پارٹی لیڈر نواز شریف کے متنازعہ بیان پر بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ جس پر وزیراعلٰی شہباز شریف نے کہا کہ دیکھیں گے کہ کس نے ایک متنازعہ صحافی سے انٹرویو کا اہتمام کیا۔ شہباز شریف کے حوالے سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ انہوں نے اراکین اسمبلی کو یقین دہانی کرائی کہ وہ نئی پیدا شدہ صورتحال پر انکے تحفظات نواز شریف تک پہنچائیں گے اور انہیں سمجھائیں گے۔ مسلم لیگ ن کی پارلیمانی پارٹی کی رپورٹنگ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعہ سامنے آئی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ن لیگ کی پارلیمانی پارٹی کے اندر ایک تشویش اور بعض ایشوز پر لیڈر شپ کے بیانات پر تحفظات پائے جاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے اور انہیں کیونکر دور کیا جا سکتا ہے یہ دراصل لیڈر شپ کا امتحان ہے، مسلم لیگ ن حکومت میں ہونے کے باوجود سیاسی تار یخ کے بڑے بحران سے دوچار ہے جس میں پارٹی کے لیڈر اپنی نااہلی کے بعد ایک بڑی جنگ لڑنے کے موڈ میں ہیں جبکہ ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف اس صورتحال میں لڑائی اور محاذ آرائی سے اجتناب برتے ہوئے حکمت عملی سے اس میں سے راستہ نکالنے کیلئے سرگرم ہیں اور کوئی ایسا نکتہ بھی نہیں رہا جس میں لیڈر شپ کا اتفاق رائے ہو اور پارٹی کے اندر انتشار کے بجائے اتحاد و یکجہتی قائم ہو حالات سازی کے اندر نواز شریف کی اہمیت کا تعلق ہے تو حقیقت یہی ہے کہ مسلم لیگ ن میں مرکز و محور نواز شریف ہی ہیں ،ان کے بیانیہ پر لوگ براہ راست تنقید تو نہیں کرتے البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ چونکہ ان کی نا اہلی کے بعد ان کے جذبات اور احساسات میں ایک رد عمل کا عنصر نظر آتا ہے۔
اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اس وقت لڑائی میں میاں نواز شریف نے جس موضوع کو چنا ہے وہ پاکستان کا روایتی حریف ہندوستان اور وہاں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات اور مبینہ طور پر بھارت کے خلاف پاکستان کی سر زمین استعمال کرنے والے غیر ریاستی عناصر ہیں ،اب میاں صاحب کیلئے مشکل یہ ہے کہ ہندوستان کے خلاف پاکستانی مؤقف میاں نواز شریف اور ان کے نظریاتی دوستوں نے محنت اور جدوجہد کے بعد متعارف کرایا تھا اور اس لڑائی میں جس میں بیانات ہندوستان کے گرد گھوم رہے ہوں وہاں عوامی حمایت لازمی پاکستانی فوج اور اداروں کے حصہ میں آئے گی ،لہٰذا مسلم لیگ ن کی صف اول کی قیادت خصوصاً میاں شہباز شریف اس معاملہ کی سنگینی کا ٹھیک احساس کر رہے ہیں اور وہ یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ مسلم لیگ اور خود نواز شریف کی سیاست کا اصل دشمن وہی ہے جس نے میاں نواز شریف کے اس متنازعہ انٹرویو کا ان حساس حالات میں اہتمام کیا ۔یہ سمجھنا اور جاننا تو ن لیگ کی نئی قیادت کی ذمہ داری ہے ،محاذ آرائی کے بجائے مفاہمت ہو اور اگر اسٹیبلشمنٹ مخالف مؤقف ہی اختیار کرنا ہے تو اپنا ہدف مبینہ طور پر غیر منصفانہ احتسابی عمل کو بنانا ہوگا۔ پاکستان کے انتخابی عمل میں مسلم لیگ ن کی اہمیت اپنی جگہ موجود ہے مگر ہندوستان کے معاملہ میں ان کی لیڈر شپ کے مؤقف کو پذیرائی ملنا مشکل ہے، سیاست اگر ممکنات کا کھیل ہے تو پھر میاں نواز شریف کو ایک قدم پیچھے ہٹ کر اپنے چھوٹے بھائی میاں شہباز شریف کو آگے بڑھانا ہو گا جو اپنے معتدل انداز سیاست سے میاں نواز شریف کیلئے سیاسی محاذ پر جگہ بنائے رکھیں اور یہی ایک ممکنہ آپشن ہے جن میں نواز شریف کا قومی سیاست میں کوئی کردار رہ سکتا ہے۔
حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ بظاہر نہیں لگتا کہ مسلم لیگ ن کو آنے والے حالات اور انتخابات میں کوئی ریلیف مل پائے گا اور یہی اصل پریشانی ہے جو پارٹی رہنماؤں اور خصوصاً وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف پر طاری ہے اور وہ جتنی اس صورتحال سے نکلنے کی تگ و دو کرتے ہیں پارٹی لیڈر نواز شریف کا ایک بیان ان کی محنت اور جدوجہد پر پانی پھیر دیتا ہے ۔ البتہ بھارت کے حوالے سے آنے والے متنازعہ بیان سے اتنا فرق ضرور پڑا ہے کہ اب پارٹی کے صدر شہباز شریف کو میاں نواز شریف کے بیانات کے حوالے سے ایک واضح مؤقف اختیار کرنا پڑ رہا ہے جہاں تک ان کی جانب سے اراکین اسمبلی کو دی جانے والی اس یقین دہانی کا تعلق ہے کہ وہ نواز شریف کو سمجھائیں گے تو شاید وہ ابھی اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ وہ بحرانی کیفیت میں گھرے اپنے قائد نواز شریف کو یہ باور کرانے کی کوشش کریں کہ وہ اپنے احتساب اور پانامہ ٹرائل میں اسٹیبلشمنٹ سے اختلافات میں اس سطح کو نہ چھوئیں کہ آپ کے ساتھ آپ کی جماعت اور سیاست داؤ پر لگ جائے ،ن لیگ کی اندرونی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں کی رائے میں کرپشن کے الزامات اور احتساب کے نتیجہ میں اقتدار سے محرومی ملی اوراب شاید نوبت جیل تک پہنچ جائے ۔ معاملہ اگر صرف اتنا رہتا تو بھی مسلم لیگ ن کی سیاست اور حمایت پر شہباز شریف کی گرفت کے ذریعے نواز شریف اپنے سیاسی وجود کا احساس دلاتے رہتے اور پاکستان کی سیاست میں میاں نواز شریف اپنے چھوٹے بھائی کے ذریعے اپنا بالواسطہ سیاسی کردار رکھتے مگر اس سارے معاملہ میں انہوں نے براہ راست طاقتور طبقات سے جنگ لڑنے کا خطرہ مول لے لیا اور معاملات اس نہج پر پہنچا دیئے ہیں کہ اگر اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی ان کیلئے سیاسی بقا کا سوال ہے تو اسٹیبلشمنٹ اور خصوصاً پاکستانی فوج کیلئے بھی یہ ادارے کی مضبوطی اور وقار کا سوال بن چکا ہے ۔ اب پاکستان میں دبے پاؤں اس مؤقف کی آہٹ سنی جا سکتی ہے ۔