لاہور: (روزنامہ دنیا) لندن فلیٹس سے متعلق ایون فیلڈ ریفرنس آخری مرحلہ میں داخل ہوگیا، سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کو کیس مکمل کرنے کیلئے 8 جون تک کی مہلت دیدی، عدالت نے نواز شریف، مریم اور کیپٹن (ر) صفدر کو 127 سوالات پر مشتمل سوالنامہ دیدیا۔ بیان کل قلمبند ہو گا۔اس کیس میں معصومیت ثابت کرنے کیلئے نواز شریف اور فیملی کیلئے آخری موقع ہے۔
میزبان پروگرام "دنیا کامران خان کیساتھ" کے مطابق خیال کیا جا رہا ہے اس کیس کا جب فیصلہ آئے گا تو موجودہ حکومت نہیں ہوگی اور اگر فیصلہ خلاف آیا تو نواز شریف گرفتار ہوسکتے ہیں اس حوالے سے دنیا نیوز کے سینئر نمائندے عامر سعید عباسی نے بتایا کہ نیب نے اس کیس میں اپنے تمام گواہ اور دستاویزات پیش کر دی ہیں اب عدالت ملزموں کو صفائی کا موقع فراہم کر رہی ہے اس سلسلے میں عدالت نے دفعہ 342 کے تحت کارروائی شروع کر دی ہے۔ لندن فلیٹس سابق وزیر اعظم اور اہل خانہ کی آمدن سے مطابقت نہیں رکھتے لہٰذا ان سے پوچھا جائے گا کہ یہ اثاثے انہوں نے کیسے بنائے اور کیا انہوں نے عوامی عہدہ رکھتے ہوئے اختیارات کا ناجائز استعمال نہیں کیا ؟ یہ 127 سوالات مجموعی طور پر سابق وزیر اعظم نواز شریف سے متعلق ہیں۔
مریم نواز سے ٹرسٹ ڈیڈ سے متعلق سوالات پوچھے گئے ہیں اور کیپٹن (ر) صفدر نے ٹرسٹ ڈیڈ پر بطور گواہ دستخط کئے تھے ان سے اس بارے میں سوال کیا گیا ہے، مریم نواز پر یہ الزام بھی ہے کہ انہوں نے اپنے والد کے اثاثے بنانے میں ان کی معاونت بھی کی۔ نواز شریف سے متعلقہ سوالات میں گلف سٹیل ملز کے شیئرز کی فروخت، قطری خط افسانہ تھایا حقیقت، جیسے سوال شامل ہیں۔ ان سے پوچھا گیا ہے کہ آپ پر الزام ہے کہ نیلسن اور نیسکول کے بے نامی مالک ہیں ؟ کیا یہ درست ہے کہ لندن فلیٹس 1993سے آپ کے قبضے میں ہیں ؟ کیا یہ درست ہے آپ وزیر اعظم سمیت دیگر عوامی عہدوں پر فائز رہے ؟ کیا آپ اپنے دفاع میں گواہ پیش کرنا چاہتے ہیں، اپنے دفاع میں کچھ کہنا چاہتے ہیں۔
عامر سعید عباسی نے بتایا کہ حسن نواز اور حسین نواز اشتہاری قرار دیئے جا چکے ہیں لیکن تمام شہادتیں ریکارڈ پر آچکی ہیں ان کو اشتہاری قرار دینے کے بعد ان کا مقدمہ بھی انہی ملزموں کے ساتھ جوڑ دیا گیا تھا، انہیں موقع دیاگیا کہ عدالت میں پیش ہوجائیں لیکن وہ پیش نہ ہوئے۔ نیب قانون کے مطابق ان کو تین سال کی سزا سنا کر یہ کیس داخل دفتر کر دیا جائے گا اور جب وہ پیش ہوں گے تو ان کیخلاف کیس چلایا جائے گا ان کیخلاف شہادت قلمبند کرنے کا سلسلہ نہیں روکا گیا کیونکہ ٹرائل میں تاخیر ہونے سے عام طور پر شہادتیں ضائع ہونے کا خدشہ ہوتا ہے اس مسئلہ سے بچنے کیلئے تمام شواہد ریکارڈ کر لئے جاتے ہیں اور کیس داخل دفتر کردیا جاتا ہے۔ نیب آرڈیننس کی شق 31 کے تحت اشتہاریوں کو تین سال قید کی سزا بھی سنا دی جاتی ہے یعنی اس کیس میں پیش نہ ہونے کی وجہ سے تین سال کی سزا تو ہونی ہے۔
دنیا نیوز کے سینئر نمائندے عامر سعید عباسی نے بتایا نہیں لگتا کہ سپریم کورٹ کی طرف سے دی گئی 8 جون کی ڈیڈ لائن تک یہ تینوں ریفرنس مکمل ہونگے مگر ایون فیلڈ ریفرنس کے مکمل ہونے کا امکان ہے۔ فاضل جج کی کوشش ہے کہ اس کو جلد سے جلد مکمل کر لیا جائے اس کے ساتھ العزیزیہ ریفرنس کو چلایا جا رہا ہے اس میں واجد ضیا کا بیان ریکارڈ ہورہا ہے اس کے بعد تفتیشی افسر کا بیان ہوگا۔ ایون فیلڈ کا فیصلہ 8 جون سے پہلے آجائے گا۔ اس سلسلے میں عدالت کے جج نے ایک مرتبہ ریمارکس دیئے تھے کہ وہ تینوں ریفرنسز کا فیصلہ ایک ساتھ سنائیں گے لہٰذا یہ بات ابھی طے نہیں کہ تینوں ریفرنسز کا فیصلہ ایک ساتھ آئے گا یا ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کا پہلے فیصلہ سنا دیا جائے گا تاہم توقع ہے کہ ایون فیلڈ ریفرنس مکمل ہوجائے گا اور قوی امکان ہے کہ وہ اس کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیں گے اور دیگر دو مقدمات کے ٹرائل مکمل ہونے پر ایک ساتھ فیصلہ سنا دیا جائے گا۔