پاکستان کی معاشی و انسانی ترقی کے حوالے سے رپورٹ جاری

Last Updated On 18 May,2018 11:47 am

لاہور: (روزنامہ دنیا) انسانی ترقی کو 3 اہم ترین عناصر سے ماپا جاتا ہے جو کہ صحت، تعلیم اور روزگار ہیں۔ پاکستان کی معاشی و انسانی ترقی کے حوالے سے پاکستان نے حال ہی میں پاکستان نیشنل ہیومین ڈویلپمنٹ رپورٹ(یو این ڈی پی) جاری کی ہے، جس میں انسانی ترقی کا قومی اشاریہ (ایچ ڈی آئی، ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس) ترتیب دے کر پاکستان میں پچھلے 10 برسوں کے دوران انسانی ترقی کا تفصیلی خاکہ پیش کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ چاروں صوبوں، فاٹا، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے ہر ضلع میں بھی انسانی ترقی کوان تین عناصرکے ذریعے ماپا گیا ہے۔ اقوامِ متحدہ 1990 سے ہر سال ایچ ڈی آئی کی درجہ بندی پر مشتمل عالمی انسانی ترقی کی رپورٹیں جاری کر رہا ہے اور اب بہت سے ملک باقاعدگی سے اپنی اپنی قومی رپورٹیں تیار کر رہے ہیں۔ پاکستان کے لیے جاری کی جانے والی یہ اپنی طرز کی دوسری رپورٹ ہے جسے 15سال کے وقفے کے بعد تیار کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں نوجوانوں کے تناسب سے انسانی ترقی پر توجہ مرکوز کی گئی ہے ۔ رپورٹ کے سیاق و سباق حاصل کرنے کے لیے 10 سال (2005-2015) پر محیط ضلع وار انڈیکس کو دو دو سال کے وقفوں سے ماپا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے نتائج صرف حیران کر دینے والے نہیں بلکہ سوچنے پر مجبور کر دینے والے ہیں۔ دو نتائج بالخصوص نمایاں انداز سے پیش کرنے کے لائق ہیں۔ اوّل، انسانی ترقی کے اعتبار سے پاکستان انتہائی غیر مساوی اور منقسم ملک ہے۔ ہمارے سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور سب سے کم ترقی یافتہ علاقوں کا باہمی فرق نہ صرف بڑا ہے بلکہ ناقابل یقین بھی ہے۔ دوئم نتائج کچھ یوں ہیں کہ جہاں بعض علاقوں کے استحقاق اور بہت سے علاقوں کی محرومیاں مستقل لگتی ہیں، وہاں حقیقت میں وہ مستقل نہیں ہیں۔ انسانی ترقی پر سرمایہ کاری کرنے سے فرق پڑ سکتا ہے۔

پاکستان کے اضلاع کے ایچ ڈی آئی پر نظر ڈالیں تو 2015 کے اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان کے بڑے حصے میں انسانی ترقی کی صوتِ حال خراب ہے۔ پنجاب کے بیشترحصوں میں انسانی ترقی کی صورتِ حال بہتر اور اچھی ہے تاہم جنوبی پنجاب کے زیادہ تر علاقے انسانی ترقی کے اعتبار سے تاحال صورتحال بہتر کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

خیبر پختون خوا اورسندھ میں تضاد زیادہ واضح ہے جہاں انسانی ترقی کے حوالے سے اضلاع میں ملاجلا رحجان پایاجاتا ہے۔ سب سے اونچے ایچ ڈی آئی والے اضلاع میں بڑے شہری علاقے (لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی، کراچی، سیالکوٹ، جہلم) شامل ہیں۔ بظاہر تو بڑے شہروں والے تمام اضلاع کا ایچ ڈی آئی بہتر ہے لیکن سب کی بہتر صورتِ حال ایک سی نہیں ہے۔ مثال کے طور پر حیدر آباد، کوئٹہ، پشاور، ملتان اور فیصل آباد بھی اونچے ایچ ڈی آئی کے حامل نہیں لیکن یہ سب ’’اونچے درمیانے‘‘ درجے میں شامل ہیں۔

رپورٹ کے ذیلی درجوں میں چھ درجوں کا اضافہ کیا گیا ہے جبکہ عالمی انڈیکس میں چار درجے ہوتے ہیں۔ درجوں میں اضافہ کی وجہ سے ملک کسی طور کم غیر مساوی یا کم منقسم نہیں بنا بلکہ سمجھنے والوں کے لیے عدم مساوات اور تفریق کے درجے زیادہ واضح ہو گئے ہیں۔ انسانی ترقی کے معیار اور درجہ بندیوں کی تقسیم سے اضلاع بارے کئی جائز سوالات جنم لیتے ہیں، مثال کے طور پر ایسا کیوں لگتا ہے کہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے قریب واقع ہونے کی وجہ سے پشین اور مستونگ میں انسانی ترقی کی صورتِ حال بہتر ہے لیکن قلعہ عبد اللہ اور ہرنائی میں انسانی ترقی کی صورتِ حال بہتر نہیں؟ یا ایسا کیوں ہے کہ خیبرپختونخوا میں اَپر دِیر ایچ ڈی آئی کے نچلے درجے میں پھنسا ہوا ہے حالانکہ اس کے تمام ہمسایہ اضلاع (چترال، سوات، لوئر دِیر) دو درجے بڑھ کر درمیانی ایچ ڈی آئی تک پہنچ چکے ہیں؟

ایسا کیوں ہے کہ پنجاب میں تمام اچھی کارکردگی والے اضلاع اس کے شمال میں واقع ہیں اور اس کے سب سے خراب کارکردگی والے اضلاع اس کے جنوب اور مغرب میں واقع ہیں؟ ان سب سوالات کے جوابات مختلف ہوں گے، اگرچہ وہاں تقریباً ہمیشہ صحت، تعلیم اور روزگار کی دست یابی کے شعبوں میں سرمایہ کاری مختلف رہی ہے لیکن یہ سوالات پالیسی میں کیے جانے والے فیصلوں کو مقامی بنا دیتے ہیں اور اکثر نظر انداز کر دی جانے والی بین الصوبائی نا برابریاں نمایاں ہو جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر مقامی فیصلہ سازوں، سیاسی شخصیات یا بیوروکریٹس سے یہ پوچھنا چاہیے کہ سندھ میں نوشہرو فیروز اپنے ہمسایہ اضلاع جام شورو اور نواب شاہ، شہید بے نظیر آباد کی نسبت ایچ ڈی آئی پر بہتر کیوں ہے؟

ایچ ڈی آئی ہمیں اس سوال کا جواب یہ دیتا ہے کہ نوشہرو فیروز میں تعلیم کے بہتر مواقع دستیاب ہیں، اسی لیے وہ ایچ ڈی آئی پر اپنے ہمسایہ اضلاع کی نسبت بہتر ہے۔ حیران کن طور پر لاہور بلوچستان سے تقریباً 1,000کلومیٹر دور واقع ہے لیکن انسانی ترقی کے حوالے سے ایسا لگتا ہے جیسے وہ کسی دوسرے سیارے پر واقع ہے۔ صفر سے دس تک کے پیمانے پر ماپا گیا تو ایچ ڈی آئی پر لاہور نے 0.877نمبر حاصل کیے اور یہ پاکستان کا سب سے اعلیٰ کارکردگی والا ضلع ہے۔ لاہور میں لڑکوں اور لڑکیوں کے تعلیم حاصل کرنے کے متوقع سال 12 سے زیادہ ہیں جب کہ آواران میں لڑکیوں کے تعلیم حاصل کرنے کے متوقع سال 3.5 اور لڑکوں کے تعلیم حاصل کرنے کے متوقع سال 7.5 ہیں۔ لاہور میں تقریباً تمام خواتین کو کسی نہ کسی حد تک والدین کی طرف سے دیکھ بھال میسر ہے جب کہ آواران میں بسنے والی خواتین میں سے صرف نصف کو والدین کی طرف سے دیکھ بھال میسر ہے۔

کراچی (0.854 ایچ ڈی آئی)، کوہستان (0.229) جہلم (0.829) اور جھل مگسی (0.183) کے مابین انتہائی زیادہ فرق ہے لیکن ترقی کے اعتبار سے پاکستان کے کسی بھی حصے کا فرق بلوچستان سے زیادہ نہیں۔ انسانی ترقی کے انڈیکس کے بہت نچلے درجے پر آنے والے 15 اضلاع میں سے صرف تین کے سوا باقی تمام اضلاع بلوچستان میں واقع ہیں۔ تجزیہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ پنجاب مسلسل ترقی کرتا رہا ہے۔ وہ 2005 میں انسانی ترقی کے انڈیکس پر 0.583(نچلے درمیانے درجے ) پر تھا لیکن 2015 میں وہ اس سے بڑھ کر 0.732 (اونچے درمیانے درجے ) پر پہنچ گیا۔ دوسری طرف سندھ نے کم متاثر کن کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ وہ 2005 میں انسانی ترقی کے انڈیکس پر پنجاب کے قریب 0.559(نچلے درمیانے درجے ) پر تھا لیکن 2015 میں وہ صرف 0.620(درمیانے درجے ) پر پہنچا۔

اس دوران خیبر پختونخوا نے اس کا اچھا فائدہ اٹھایا۔ 2005 میں خیبر پختونخوا کا ایچ ڈی آئی 0.463 (نچلے درمیانے درجے پر) تھا اور سندھ سے بہت کم تھا لیکن 2015 تک وہ ایچ ڈی آئی کے 0.628 نمبرحاصل کر چکا تھا۔ بلوچستان 2005 کے بہت نچلے ایچ ڈی آئی (0.294) سے تھوڑا سا اوپر اٹھ کر 2015 میں نچلے درجے (0.421) پر پہنچا لیکن اس کی رفتار بہت ہی سست رہی۔ایک دل چسپ اشاریہ یہ ہے کہ ان دس برسوں میں سب سے کم کارکردگی دکھانے والے دس اضلاع میں سے چھ اضلاع سندھ کے (تھر پارکر، شکار پور، میر پور خاص، گھوٹکی، بدین، سکھر)تھے جبکہ باقی چار اضلاع(کوئٹہ، قلعہ عبد اللہ، زیارت، جھل مگسی)کاتعلق بلوچستان سے ہے۔ دوسری طرف جن دس اضلاع کی کارکردگی پہلے کی نسبت سب سے زیادہ بہتر ہوئی، ان میں سے چار خیبر پختو نخوا میں(مالاکنڈ، چترال، مانسہرہ، چارسدہ) اور تین پنجاب میں (اوکاڑہ، خوشاب، لودھراں) تھے۔

دس سال کے عرصے کے دوران ایچ ڈی آئی میں بہتری کے ضلع وار تجزیے سے اس رجحان کی توثیق ہوئی ہے۔ سندھ کے 24 اضلاع میں سے صرف 2 (دادو اور لاڑکانہ) کی کارکردگی 2005-2015 کے عرصے میں پہلے سے بہتر ہوئی جبکہ خیبر پختونخوا کے 25اضلاع میں سے 11 اضلاع (ایبٹ آباد، بونیر، چارسدہ، چترال، ہری پور، کرک، لکی مروت ،مالاکنڈ، مانسہرہ، مردان اور پشاور) کی کارکردگی بہتر ہوئی۔ انسانی ترقی کے لیے سب سے بہتر یہ ہے کہ ہر ضلع کے پالیسی سازی کے ذمہ دار افراد، مقامی و صوبائی سیاستدان اور سرکاری افسر اپنی اپنی کارکردگی کا جائزہ لیں اور اپنے آپ سے یہ سوال کریں کہ اپنے علاقہ کو کس طرح بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ یہ جاننے کے لیے دوسروں پر نظر ڈالی جا سکتی ہے کہ انھوں نے کن تصورات پر عمل کر کے یہ ترقی حاصل کی اور ان کی تقلیدکی جانی چاہیے۔ انسانی ترقی کے لیے لازم ہے کہ تعلیم، صحت اور روزگار پر سرمایہ کاری کی جائے ،تاکہ لوگوں کامعیار زندگی بہتر ہوسکے ۔