لاہور: (روزنامہ دنیا) جسمانی کی طرح ذہنی امراض بھی لاحق ہو جاتے ہیں۔ نفسیاتی امراض کا علاج تھراپی اور ادویات دونوں سے کیا جاتا ہے۔ اگر مرض کی شدت کم ہو تو کوشش کی جاتی ہے کہ ادویات کے بغیر تھراپی کے ذریعے علاج کر لیا جائے۔ بعض افراد کو اپنے ماہر نفسیات یا تھراپسٹ سے شکایات ہوتی ہیں۔ دوران علاج انہیں احساس ہونے لگتا ہے کہ نفسیاتی مسائل کے لیے تھراپی کام نہیں کر رہی۔ نفسیاتی امراض کے لیے تھراپی مؤثر ہے۔ تھراپی میں گفتگو اور مشاورت ہی کے ذریعے بہت سے لوگ بہتر ہو جاتے ہیں لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ تھراپسٹ قابل ہو۔
بہت سے افراد کو اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ ایک قابل اور اچھا ماہر نفسیات یا تھراپسٹ کیسا ہوتا ہے۔ کچھ افراد کی سالوں تک ایک ماہر تھراپی کرتا رہتا ہے اور وہ بہتری محسوس نہیں کرتے۔ اچھے تھراپسٹ کے کام کا مثبت نتیجہ نکلنا چاہیے۔ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ کبھی کبھی مسئلہ تھراپسٹ کی بجائے آپ کے ساتھ ہوتا ہے۔ اگر بہتری کے لیے آپ ایمانداری، ذمہ داری اور مضبوط ارادے سے کام نہیں لے رہے تو بہتر نہ ہونے کا سبب آپ خود ہیں۔ اس کے باوجود اگر آپ کا ذہنی مسئلہ تھراپسٹ حل نہیں کر پا رہا تو اسے بدلیں۔
ذیل میں ان علامات کا ذکر ہے جن کی موجودگی میں ایسا کرنا چاہیے۔
1۔ سمجھ نہ پانا: تھراپی کے سیشنز میں جب آپ کا تھراپسٹ غلط توجیحات پیش کر رہا ہو، بار بار کنفیوژن کا شکار ہو یا جھجک دکھا رہا ہو تو آپ کو شک پڑ جاتا ہے کہ وہ آپ کے مسئلے کو اچھی طرح سمجھ نہیں پا رہا۔ اگر تشخیص غلط ہو جائے تو علاج بھی غلط ہوگا۔ اگر آپ کو یہ محسوس ہو کہ آپ کے مسئلے کو ماہر سمجھنے سے قاصر ہے تو علاج جاری رکھنے سے پہلے کسی دوسرے ماہر سے مشورہ کر لیجیے۔ ایک اچھا تھراپسٹ ایک یا دو سیشنز میں ذہنی صحت کا جامع نقشہ بنانے کے قابل ہوتا ہے۔ وہ علاج کے لیے ایسے مشورے دیتا ہے جو معقول لگتے ہیں اور آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ بصیرت رکھتا ہے۔
2۔ بہت ملنسار: مریض کا بھروسہ پانے کے لیے ملنسار و مددگار ہونا مفید ہوتا ہے، لیکن اگر یہ لگے کہ تھراپسٹ بس آپ کی باتیں اچھی طرح سنتا جا رہا ہے اور آپ کے جذبات کے بہاؤ میں بہہ رہا ہے تو شاید آپ کو اسے بدلنے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ صرف اس ڈر سے کہ آپ اَپ سیٹ نہ ہوں زندگی کے بعض اہم مگر حساس پہلوؤں پر بات کرنے سے گریز کرے۔ تاہم آپ کو ایسا تھراپسٹ چاہیے جو آپ کی سچائیاں آپ کے سامنے لا سکے اور علاج کی خاطر ایسی بات بھی کر سکے جو آپ کو بے آرام کرتی ہے۔
3۔ مشورہ نہ دینا: کچھ تھراپسٹ مشورے دینے سے بہت گریز کرتے ہیں۔ انہیں شاید ڈر ہوتا ہے کہ جس طرح کی تھراپی ہو رہی ہے اگر اسے بدلا گیا تو کہیں آپ مخالفت نہ کرنے لگیں۔ مشورہ اور رہنمائی تھراپی کا اہم حصہ ہیں۔ مریضوں کو اپنی زندگی بہتر بنانے کے لیے نیا مشورہ چاہیے ہوتا ہے۔ انہیں سننا کافی نہیں ہوتا۔ ایک اچھا تھراپسٹ مشورہ دیتا ہے اور اس کے ساتھ مریض کو اپنے فیصلے خود کرنے کے قابل بھی بناتا ہے۔
4۔ بہت زیادہ شیئر کرنا: کسی بھی تھراپسٹ کے لیے یہ غیر پیشہ ورانہ اور نامناسب ہے کہ وہ اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں بات کرے۔ بعض تھراپسٹ کا خیال ہوتا ہے کہ ذاتی زندگی کی باتیں بتا کر مریض سے ربط بہتر ہو گا لیکن یہ غیر اصولی اور غیر پیشہ ورانہ تصور ہے۔ مریض کا دوست نہیں بننا چاہیے اور اپنی حدود کو سمجھنا چاہیے۔
5۔ آپ زیادہ سمجھدار ہیں: اگر ایسا ہو کہ کئی موقعوں پر تھراپسٹ سے زیادہ سمجھ آپ کو آ رہی ہو، یعنی اس کی سمجھ بوجھ میں گہرائی نہ ہو تو بہتر ہے کہ زیادہ سمجھدار ماہر سے رجوع کریں۔
6۔ پروا نہ کرنا: ہمیشہ یہ احساس ہونا چاہیے کہ تھراپسٹ اپنی پوری کوشش کر رہا ہے۔ اگر ایسا لگے کہ وہ توجہ نہیں دے رہا یا وہ بار بار بھول جاتا ہے یا اسے آپ سے زیادہ فیس کی فکر ہے، وہ لاپروا ہے تو یہ اچھی علامات نہیں۔ اسی طرح اس میں ہم دردی کا عنصر نظر نہ آئے تو اپنے انتخاب پر ازسرنو غور کیجیے۔
7۔ رکاوٹ: کبھی کبھار یوں ہوتا ہے کہ آپ بہتر ہوتے ہیں لیکن ایک مقام پر آ کر بہتری کا عمل رک جاتا ہے۔ ایسے میں اگر تھراپسٹ نئی صورت حال کے مطابق اپنے طریقہ کار کو نہیں بدلتا تو یہ اس کی ناکامی ہو گی۔
8۔ دلچسپی لینا: تھراپسٹ کا مریض میں رومانوی دلچسپی لینا بالکل غلط سمجھا جاتا ہے اور اس سے علاج متاثر ہوتا ہے۔ اگر محسوس ہو کہ وہ ایسی دلچسپی لے رہا ہے تو اس سے علاج کرانا ترک کر دینا چاہیے۔ پیشہ ور تھراپسٹ اپنی حدود سے باہر نہیں جاتا اور ایسا ماحول پیدا کرتا ہے جس میں توجہ صرف علاج پر ہو۔
9۔ بلانا: بدقسمتی سے کچھ تھراپسٹ علاج میں بہتری نہ بھی لا رہے ہوں تو بھی وہ چاہتے ہیں کہ مریض ہاتھ سے نہ جائے۔ اس کے لیے وہ مریض سے ایسی باتیں کرتے ہیں جن سے کسی دوسرے تھراپسٹ کے پاس جانے کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور مریض کسی دوسرے کے بارے میں سوچنے پر احساس جرم میں مبتلا ہوتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو اپنا تھراپسٹ بدلیں۔
10۔ اندازِ گفتگو: تھراپسٹ ایسا ہونا چاہیے جس سے آسانی سے اپنا مدعا بیان ہو سکے۔ اگر وہ تلخ لہجے اور روک ٹوک کا عادی ہو گا تو بات مکمل نہیں ہو پائے گی۔
ترجمہ: رضوان عطا