لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے پنجاب کے 4 اضلاع کی حلقہ بندیاں کالعدم قرار دینے کا عمل اور نئی حلقہ بندیوں کیلئے ہر نشست پر آبادی کا تناسب مد نظر رکھنے کی ہدایات ظاہر کر رہی ہیں کہ ابھی الیکشن کی حتمی تیاریاں نہیں ہو سکیں ۔ ابھی حالیہ درخواستوں پر 4 اضلاع کی حلقہ بندیاں کالعدم قرار دی گئی ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں 108 درخواستیں زیر سماعت ہیں اور دیگر پر بھی فیصلے اگلے 48 گھنٹے میں متوقع ہیں۔ حلقہ بندیوں کے حوالے سے اگر کنفیوژن طاری رہے گی تو انتخابات کا بروقت انعقاد ممکن نہیں بنے گا۔ انتخابی امیدواروں اور خود سیاسی جماعتوں کیلئے اپنی اپنی اشتہاری مہم کو منظم کرنا بھی مشکل ہو گا۔ لہٰذا مذکورہ فیصلہ کے حوالے سے اگر الیکشن ایکٹ 236 کی ذیلی دفعہ 3 کو دیکھا جائے تو حلقہ بندیوں کے حوالے سے حتمی فیصلہ کا اختیار الیکشن کمیشن کو حاصل ہے اور اس سے قبل بھی اس طرح کے ایک فیصلہ پر الیکشن کمیشن نے تشویش بھی ظاہر کی تھی لہٰذا مذکورہ فیصلہ کی روشنی میں سوال یہ اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ انتخابات کے شیڈول سے قبل حلقہ بندیوں کا عمل مکمل ہو پائے گا۔ کیا انتخابات کا بروقت انعقاد ممکن ہو گا ؟ اور حلقہ بندیوں کے حوالے سے حتمی مسئلہ کا اختیار کس کا ہے ؟۔
انتخابی عمل کے حوالہ سے نگران وزیراعظم کیلئے جسٹس ریٹائرڈ ناصر الملک کے متفقہ انتخاب کے بعد انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے بہت حد تک خطرات اور خدشات کا خاتمہ ہو گیا تھا اور سیاسی جماعتوں نے نگران وزیراعظم کی نامزدگی کی تائید کرتے ہوئے انتخابات کے حوالے سے سکیورٹی اور سنجیدگی پیدا کی تھی لیکن 24 گھنٹے بعد ہی اسلام آباد ہائیکورٹ کے اس فیصلہ نے ایک دفعہ پھر ملک میں ہونے والے انتخابات کے حوالے سے غیر یقینی کی فضا پیدا کر دی ہے۔ بظاہر اس مرحلہ تک پہنچتے پہنچتے حکومت اور قوم یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ انتخابی امور، نئی ووٹرز لسٹیں اور نئی حلقہ بندیوں کے معاملات طے ہو چکے ہیں۔
کچھ حلقہ بندیوں کے حوالے سے اپیلوں پر امکان ظاہر کیا جا رہا تھا کہ یہ دس دنوں میں نمٹ جائیں گی مگر اسلام آباد ہائیکورٹ کے اس تازہ ترین فیصلہ نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور اب سوال یہ اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ حلقہ بندیوں کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے حتمی اختیار کو صحیح کیا جا سکتا ہے کیونکہ الیکشن ایکٹ 2018 کی دفعہ 236 کی ذیلی دفعہ 3 میں واضح کیا گیا ہے کہ یہ حتمی اختیار الیکشن کمیشن کا ہے لیکن حلقہ بندیوں پر اپیلیں جب سپریم کورٹ میں گئیں تو سپریم کورٹ نے ان کو اسلام آباد ہائیکورٹ کی طرف بھجوایا تھا اب معاملہ کورٹس اور الیکشن کمیشن کے درمیان ہے یہ کیسے طے ہو پائے گا۔ اس میں بھی کافی دن لگتے نظر آ رہے ہیں۔ جب حلقہ بندیوں کے معاملات سیٹل ہوں گے اور ان میں مزید کوئی جزوی تبدیلیاں کرنا پڑ گئیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ پنجاب کے 4 اضلاع کی قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہو گی اور ان حلقوں میں انتخابی مہم کا کیا ہو گا۔ امیدواروں میں یکسوئی پیدا ہو سکے گی اور ان کے کاغذات نامزدگی کے عمل کے حوالے سے بھی اچھا ماحول بن پائے گا۔
اب اگر یہ معاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں آیا ہے تو لا محالہ اسے پھر عدالت عظمیٰ میں بھی اپیل کیلئے جانا ہے اس سارے عمل سے خود الیکشن کی تیاریوں کے حوالے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان بھی کنفیوژن کا شکار ہوگا۔ لا محالہ طور پر اس ساری صورتحال کے اثرات باقی صوبوں پر ہوں گے اور وہ خطرات اور خدشات جن کا انتخابات کے التوا کے حوالے سے اظہار ہو رہا ہے اب وہ کھل کر سامنے آ چکے ہیں۔ پنجاب سے ملتی جلتی صورتحال جب ملک کے دیگر تین صوبوں میں بھی پیش آئے گی تو الیکشن کمیشن کیلئے اس ماحول میں آگے بڑھنانا ممکن ہوگا۔ جبکہ منتخب حکومت کے بجائے عبوری نگران حکومت قائم ہو گی۔ دراصل یہی وہ وقت ہو گا جب عملاً بے دست و پا نگران حکومتیں انتخابی تیاریوں کے حوالے سے ان الجھے معاملات کیلئے کبھی الیکشن کمیشن کی جانب دیکھیں گی اور کبھی اعلیٰ عدالتوں کی طرف رجوع کریں گی۔ اب گیند الیکشن کمیشن کے کورٹ میں ہے کہ وہ عام سیاسی سٹیک ہولڈرز سے رابطہ کر کے فی الفور حلقہ بندیوں کے معاملات کو ترجیحی بنیادوں پر نمٹائے، اگر یہ معاملات الیکشن کمیشن اور اعلیٰ عدالتوں میں الجھے رہے تو انتخابات کا بروقت انعقاد ممکن نہیں ہو گا۔