لاہور(دنیا الیکشن سیل ) سندھ میں پیپلز پارٹی کے اثر و رسوخ کو توڑنے کے لئے نہ صرف مختلف ادوار میں مختلف اتحاد بنتے رہے ہیں بلکہ مارشل لاء ایڈمنسٹریٹرز کی جانب سے مختلف پارٹیوں کو عمل میں لانے کا الزام بھی لگایا جاتا ہے۔
ماضی میں سندھ کی سطح پر بننے والے اتحاد کامیابی حاصل نہیں کرسکے مگر اس بار گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے نام سے بنائے گئے پلیٹ فارم پر جمع ہونے والے پیپلز پارٹی کے مخالفین پی پی پی کے لئے خطرہ بنتے جا رہے ہیں۔ پیر پگارا کی سربراہی میں بننے والے اس اتحاد میں مسلم لیگ فنکشنل کے اہم رہنماﺅں کے علاوہ سندھ کی اہم سیاسی شخصیات شامل ہیں۔ جن میں سندھ کے سابق وزرائے اعلیٰ سید غوث علی شاہ‘ ممتاز بھٹو اور ارباب غلام رحیم کے سمیت فنکشنل لیگ کے مظفر شاہ، قومی عوامی تحریک کے صدرایازلطیف پلیجو‘ سابق وزیرداخلہ ڈاکٹرذوالفقار مرزا، ان کی اہلیہ اور سابق اسپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا ،سابق ایم پی اے سردار عبدالرحیم اورسابق وفاقی وزیر غوث بخش مہر نمایاں ہیں۔
ان کے علاوہ صفدرعباسی، ناہیدعباسی، رسول بخش پلیجو، عبدالکریم شیخ، سابق وزیر عرفان اللہ خان مروت اور حاجی شفیع جاموٹ بھی سیاسی طورپر اہم نام ہیں۔ غوث علی شاہ ضلع خیر پور میں سیاسی اثر و رسوخ رکھتے ہیں اور قومی و صوبائی حلقوں میں پیپلز پارٹی کے مضبوط مخالف ثابت ہونگے۔ اسی طرح ممتاز بھٹو کی سیاست کی بنیاد زرداری مخالفت پر ہے اور لاڑکانہ میں ان کا تاثر پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کے سخت مخالف کے طور پر پایا جاتا ہے۔ ارباب غلام رحیم ضلع تھرپارکر ، ذولفقار مرزا اور ان کی اہلیہ فہمیدہ مرزا ضلع بدین اورغوث بخش مہرشکار پور سے پیپلز پارٹی کے خلاف نہ صرف مضبوط امیدوار ہیں بلکہ ماضی میں اپنے حلقوں سے کامیاب بھی ہوتے رہے ہیں۔
گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس پیپلز پارٹی کے خلاف بننے والا یہ پہلا محاذنہیں ہے ماضی میں بھی اس کی کئی مثالیں موجو د ہیں۔ 1988 میں ہونے والے عام انتخابات سے پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف جماعت اسلامی ، پاکستان مسلم لیگ اور نیشنل پیپلز پارٹی سمیت دائیں بازو کی نو جماعتوں نے مل کر "اسلامی جمہوری اتحاد " کے نام سے انتخابی اتحاد بنایا۔ یہ اتحاد ملک بھر سے صرف 56 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو ا جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی نے 94 نشستیں حاصل کیں۔ اسی دور میں بننے والے ایک اور انتخابی اتحاد پاکستان عوامی اتحاد "نے صرف 3 نشستیں حاصل کیں۔
1990 کے عام انتخابات میں "اسلامی جمہوری اتحاد " نے 106 نشستیں جبکہ پیپلزپارٹی صرف 44 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کے خلاف ممتاز بھٹو کی سربراہی میں "سندھ نیشنل فرنٹ" کے نام سے اور "سندھ نیشنل الائنس " کے نام سے انتخابی اتحاد بھی بنے جو سندھ میں پیپلز پارٹی کو نقصان پہنچانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ 1993 کے عام انتخابات میں بھی پیپلزپارٹی کے خلاف دائیں بازو کی مختلف جماعتوں نے " پاکستان اسلامک فرنٹ"، "اسلامی جمہوری محاذ"، "متحدہ دینی محاذ" اور "نیشنل ڈیموکریٹک الائنس" کے نام سے انتخابی اتحاد بنائے لیکن یہ اتحاد پیپلزپارٹی کو زیادہ نقصان نہ پہنچا سکے اور پیپلز پارٹی حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔2002 کے انتخابات میں بھی پیپلزپارٹی کے مد مقابل "متحدہ مجلس عمل" جسے ایم ایم اے کے نام سے جانا جاتا ہے اور "سندھ ڈیموکریٹک الائنس" جیسے انتخابی اتحاد بنے۔
سندھ ڈیموکریٹک الائنس تو پیپلز پارٹی کو نقصان پہنچانے میں ناکام رہا البتہ ایم ایم اے کے 17 امیدوار پیپلزپارٹی کے امیدواروں کو شکست دینے میں کامیاب رہے۔ 2008 کے انتخابات میں بھی ایم ایم اے پیپلزپارٹی کے مد مقابل فعال رہی البتہ پیپلزپارٹی کو انتخابات میں کوئی نقصان نہ پہنچا سکی اور پیپلز پارٹی حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی۔
موجودہ صورتحال میں بننے والے جی ڈی اے سندھ میں پیپلز پارٹی کو آئندہ الیکشن میں شکست دینے کے لئے مسلسل سرگرم ہے۔ ارباب غلام رحیم نے عمرکوٹ کے حلقہ این اے 229 میں پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار شاہ محمود قریشی کے حق میں دستبرداری کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ جی ڈی اے تحریک انصاف اور ایم ایم اے کے ساتھ سندھ میں کچھ نشستوں پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہو سکتی ہے۔ پیر پگارا صبغت اللہ شاہ راشدی اور چودھری شجاعت حسین نے اسلام آباد میں ملاقات کہ بعد پنجاب میں مسلم لیگ ق اور جی ڈی اے کے انتخابی اتحاد کا اعلان کردیا ہے۔
جی ڈی اے کو پیپپلز پارٹی بھی اپنے لئے خطرہ اس لئے سمجھ رہی ہے کہ پیپلز پارٹی کے سابق رہنماﺅں اور اپنے اپنے حلقے کی اہم شخصیات ہیں جو اس اتحاد کا حصہ بن چکی ہے۔ ماضی میں اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ یہ وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی سے ناراض اراکین اور آزاد امیدواروں کی نظریں جی ڈی اے پر ہیں اور جی ڈی اے کی جانب سے ٹکٹ کے منتظر ہیں۔سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ کم یا زیادہ لیکن جی ڈی اے پیپلز پارٹی کو نقصان ضرور پہنچائے گا۔ جی ڈی اے سندھ میں پیپلزپارٹی کو بڑا نقصان پہنچانے میں کامیاب ہوتا ہے یا ماضی میں بننے والے انتخابی اتحادوں کی طرح خود ماضی کا قصہ بنتا ہے اس کا فیصلہ تو آئندہ انتخابات کے نتائج ہی کریں گے۔