لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) جواباً مسلم لیگ ن کی لیڈر شپ خصوصاً میاں نواز شریف کی جانب سے اس پر آنے والا رد عمل اور احتجاج کی کال سے انتخابی فضا بن سکے گی یا نہیں البتہ ملک کے اندر سیاسی قوتوں اور اداروں کے درمیان محاذ آرائی، کشمکش اور تناؤ کی کیفیت ضرور بنے گی اور اس نفسیاتی کیفیت میں اگر بروقت انتخابات ممکن ہو بھی پائیں گے تو ان کی آزادانہ، غیر جانبدارانہ اور شفافیت پر سوالیہ نشان رہے گا اور انتخابات استحکام آور بننے کے بجائے ملک میں انتشار اور خلفشار میں اضافے کا باعث بنیں گے اور اس صورتحال کا فائدہ یا نقصان کسی فرد جماعت یا ادارے کو ہو نہ ہو ملک اور ملکی معیشت کو اس کا نقصان ضرور ہو گا۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو مختلف حکومتوں اور ادوار میں کرپشن اور لوٹ مار کا شور بہت اٹھایا جاتا رہا مگر احتساب کا یہ عمل موثر اور نتیجہ خیز بننے کے بجائے ایک دوسرے کو ٹارگٹ کرنے اور اپنے اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل تک محدود رہا۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں احتسابی ادارے وجود میں آنے کے باوجود ملک میں کرپشن، لوٹ مار کا رجحان بڑھا اور کرپٹ، بددیانت اور خائن جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے جانے کے بجائے مسند اقتدار تک پہنچتے نظر آئے۔
یہی وجہ رہی کہ کوئی کرپشن کرتے وقت پریشان نہ ہوا اور یہ سمجھ کر اپنے ہاتھ کالے کرلئے کہ کچھ لے دے کر معاملہ دب جائے گا۔ جنرل مشرف کے دور میں نیب کا ادارہ وجود میں آیا اور کرپشن اور لوٹ مار کے الزامات زیادہ تر سیاستدانوں پر عائد ہوئے اور خود ان کے اپنے دور میں نیب کے ذمہ داران خصوصاً جنرل شاہد عزیز اور جنرل امجد ریکارڈ پر ہیں کہ کرپٹ عناصر کے خلاف کارروائی کو ایوان صدر کی ہدایت پر یہ کہہ کر روک دیا گیا کہ ہمیں اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل کیلئے ایک جماعت بنانا ہے لہٰذا جن جن کے خلاف نیب میں مقدمات تھے وہ اس کنگز پارٹی کا حصہ بنتے چلے گئے اور جنرل مشرف کی کابینہ میں ایسے وزرا بھی شامل تھے جو وزیر ہونے کے باوجود احتساب کورٹ میں موجود نظر آئے اور انہیں ان عدالتوں سے بری ہونے کے سرٹیفکیٹ ملتے گئے۔
بعد ازاں سیاسی ادوار خصوصاً سابق صدر آصف زرداری اور خود میاں نواز شریف کے دور میں بھی نیب کے ادارے کو کرپٹ عناصر کے خلاف بروئے کار لانے کے بجائے اسے اپنے اپنے بندوں کے خلاف کرپشن کے مقدمات کے ازالہ کیلئے بروئے کار لایا گیا۔ ادھر پھر آصف زرداری جیسے سیاستدان اور حکمران کرپشن کے الزامات سے پاک ہوتے گئے۔ لہٰذا موجودہ صورتحال میں نیب کی پھرتیاں اور بعض انتخابی امیدواروں کی گرفتاری کا عمل اور سیاسی لیڈروں کی پیشیاں یہ ظاہر کر رہی ہیں کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے اور کوئی خاص ایجنڈا ہے جس پر کام شروع ہے۔
اس امر پر کوئی دو آرا نہیں کہ جس جس نے قومی دولت کو لوٹا وہ کسی طرح بھی قابل معافی نہیں اور اسے اس پر جوابدہ ہونا چاہئے اور کرپٹ عناصر کے گردن قانون کا شکنجہ کسا جانا اور ان کی گردن ناپنا ملک کے بہترین مفاد میں لازم ہے۔ لیکن انتخابی عمل کے دوران گرفتاریوں اور مقدمات کا عمل یہ ظاہر کر رہا ہے کسی نہ کسی سطح پر یہ تحریک موجود ہے کہ یہاں انتخابی فضا نہ بن پائے اور عوام الناس انتخابی عمل کا حصہ بن کر ملک میں ایک مضبوط اور موثر حکومت نہ بنا پائیں۔
اس کا جائزہ لینا ضروری ہے اور نگران حکومت خصوصاً نگران وزیراعظم کو اس عمل پر ضرور قوم کو اعتماد میں لینا چاہئے کیونکہ ان کے حوالے سے ایک عام رائے ضرور ہے کہ وہ ملک میں بروقت شفاف انتخابات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں۔ اگر یہی کیفیت طاری رہتی ہے تو انتخابات کے انعقاد اور شفافیت کے حوالے سے بہت سارے سوالات کھڑے ہوں گے جہاں تک حال ہی میں این اے 59 سے مسلم لیگ ن کے امیدوار قمر الاسلام راجہ کی گرفتاری کا تعلق ہے تو اس نے ایک نئی بحث کا راستہ کھولا ہے کیونکہ 11 جون کو نیب ان کے حوالے سے یہ کہہ چکی تھی کہ ان کے خلاف کوئی تحقیقات نہیں ہو رہی۔
اب جبکہ مسلم لیگ ن نے انہیں سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے مقابلہ پر اتارا تو 24 گھنٹے بعد ہی ان کی گرفتاری نے نہ صرف خود چوہدری نثار علی خان کی پوزیشن کو متاثر کیا بلکہ بہت سے سوالات کھڑے کر دئیے اور لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ آخر کیوں ایک انتخابی امیدوار کو انتخابی عمل کے دوران بغیر کسی تحقیقات کے گرفتار کر لیا گیا اور کیا صاف پانی سکینڈل کے علاوہ ملک میں نیب کے پاس ایسے مقدمات نہیں ہیں جن میں دیگر جماعتوں اور اداروں کے ذمہ داروں کے خلاف شکایات اور مقدمات کیلئے سفارشات موجود ہوں۔
ایک جانب چیئر مین خود نیب کے ادارے کو بم سے اڑانے کی دھمکی کا انکشاف کر رہے ہیں تو دوسری طرف نیب کی جانب سے ایک جماعت کے انتخابی امیدوار کی اچانک گرفتاری کا عمل اور مقدمات کی بھرمار کسی سیاسی بم سے کم نہیں اور اس کے اثرات سیاسی اور انتخابی فضا میں نظر آ رہے ہیں اور اگر یہ سلسلہ یونہی جاری رہا تو ایسی ہیجانی فضا طاری ہو سکتی ہے جس میں شفاف اور آزادانہ انتخابات ممکن نہ بن سکیں۔ یہ بات کسی بڑے قومی المیہ سے کم نہیں ہو گی اور عوام کے اندر بھی ایسی چہ مگوئیاں ابھرنا شروع ہو گئی ہیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ایک طرف انتخابات کی تیاریاں ہیں تو دوسری جانب انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں کے رہنما اور امیدوار ٹارگٹ ہو رہے ہیں جس سے یہ سوال اٹھ کر سامنے آتا ہے کہ آخر ان بڑی کارروائیوں کیلئے اس وقت کو کیوں چنا گیا۔
قومی دولت لوٹنے والے قابل معافی نہیں لیکن انتخابات سے قبل انہیں جواز بنا کر ایسی کیفیت کیونکر طاری کی جا رہی ہے۔ جہاں تک نواز شریف کی جانب سے مذکورہ کارروائیوں کے خلاف رد عمل اور احتجاج کا سوال ہے تو وہ کرپشن کے خلاف مقدمات کو جواز بنا کر احتجاج کی کال دیں گے تو اسے پذیرائی نہیں مل سکے گی۔ البتہ انتخابات کے بروقت انتخاب کے لئے اگر اپنی جماعت اور امیدواروں کو سرگرم کر پاتے ہیں تو انہیں اس کا سیاسی اور انتخابی فائدہ مل سکتا ہے۔
کیونکہ ایسی اطلاعات ہیں کہ بعض قوتیں خود نواز شریف کے ووٹ بینک پر اثر انداز نہ ہونے کے باعث ایسی کیفیت طاری کرنے پر مصر ہیں کہ یا تو انتخابات بروقت نہ ہو پائیں،یا ایسا ماحول پیدا کر دیا جائے کہ مسلم لیگ ن اپنے خلاف ہونے والے اقدامات، مقدمات اور گرفتاریوں کو جواز بناتے ہوئے انتخابی بائیکاٹ پر مجبور ہو لیکن زمینی حقائق اور عوامی رجحانات پر نظر دوڑائی جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ مسلم لیگ ن سب کچھ برداشت کر لینے کے باوجود پیچھے نہیں ہٹے گی۔ کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ عوام اپنی مٹھی میں بند ووٹ کی طاقت کو سویلین بالادستی کیلئے بروئے کار لائیں گے اور من پسندوں کو مسلط کرنے کی تمام سازشوں کو ناکام بنائیں گے ۔ لہٰذا اب دیکھنا پڑے گا کہ ملک میں بننے والی فضا حالات کو انتخابات تک لے جاتی ہے یا نہیں اور کیا مسلم لیگ ن حالات کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہے۔