لاہور: (دنیا نیوز) نگران وفاقی کابینہ نے سابق وزیراعظم نوازشریف اور انکی صاحبزادی مریم کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کے جیل ٹرائل کی بجائے کھلی عدالت میں سماعت کی منظوری دے دی۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں 13 جولائی کا نوٹیفکیشن واپس لئے جانے کا بھی فیصلہ کیا گیا جس کے تحت نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف ریفرنسز کی کارروائی جیل میں ہونی تھی۔
قبل ازیں مسلم لیگ ن کے صدر شہبازشریف نے ایک بیان میں کہا تھا کہ نوازشریف اور مریم کا جیل میں ٹرائل آئین اور قانون سے متصادم اور غلط فیصلہ ہے۔ نگران وزیر اطلاعات سید علی ظفر نے دنیا نیوز کے پروگرام دنیا کامران خان کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا تھا کہ نوازشریف اور انکی صاحبزادی کے خلاف مقدمہ جیل میں نہیں چلے گا، سکیورٹی وجوہات کے باعث صرف ایک سماعت جیل میں ہو گی۔
یہ بھی پڑھیں: نواز، مریم کا ٹرائل کھلی عدالت میں ہو گا، وفاقی کابینہ نے منظوری دے دی
نگران حکومت نے بعد ازاں باقاعدہ طور پر یہ اعلان کر دیا کہ دونوں ن لیگی رہنماؤں کا ٹرائل کھلی عدالت میں ہی ہو گا جس پر ن لیگی حلقوں میں اطمینان کی لہر دوڑتی محسوس ہوئی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کھلی عدالت ہے کیا اور ن لیگ کا بالآخر اس پر اتنا اصرار کیوں تھا۔
کھلی عدالت سے مراد یہ ہے کہ کسی مخصوص کیس کی تمام رسمی و غیر رسمی کارروائی کا مشاہدہ عام شخص کسی پابندی کے بغیر کر سکے اور آئین و قانون اس کی پاکستانی شہری کو اجازت بھی دیتا ہے۔ کھلی عدالت کے حوالے سے عام خیال کیا جاتا ہے کہ چونکہ سماعت کی تمام کارروائی سب کے سامنے ہو رہی ہوتی ہے لہٰذا اس میں ملزم کو خلاف ضابطہ و قانون سزا نہیں سنائی جا سکتی۔
جیل ٹرائل کی بجائے کھلی عدالت کا ایک سیاسی فائدہ بھی ہوتا ہے کہ جیل میں پابند سلاسل سیاسی رہنما جب عدالت جاتے ہیں تو ان کی عدالت آمد اور واپسی کے موقع پر پارٹی کارکنان پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتے ہوئے ان کے حق میں نعرے بازی کرتے ہیں یا دوسرے الفاظ میں اسیر رہنما حکومت وقت اور دیگر مخالفین کو اپنی عوامی مقبولیت دکھا کر اخلاقی برتری حاصل کرنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ سیاسی رہنماؤں کی اپنے کارکنان کو دیکھ کر ہاتھ ہلانے کی تصاویر جب میڈیا کی زینت بنتی ہیں تو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دن گزارنے والے رہنماؤں کو ہیرو کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جسے بعض تجزیہ کار مقدمے کی قانونی کارروائی پر اثرانداز ہونے کا اوچھا ہتھکنڈہ قرار دیتے ہیں۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ نگران وزیراطلاعات بیرسٹر علی ظفر نے میڈٰیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سکیورٹی خدشات ہوئے تو نیب کورٹ کو کسی دوسری جگہ منتقل کر دیا جائے گا۔ سینئر اینکر پرسن اور قانونی ماہر حبیب اکرم کے مطابق کھلی عدالت کی کارروائی تو عوام کی موجودگی میں ہوتی ہے تاہم کچھ مخصوص کیسز میں عوام کو عدالت میں جانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور متعلقہ جج کے چیمبر میں ہی عدالتی کارروائی انجام پاتی ہے۔ چونکہ نوازشریف کا کیس ہائی پروفائل ہے اس لئے آخری لمحات میں عدالت کا مقام جیل میں تبدیل کیا جا سکتا ہے جس میں میڈیا رپورٹنگ بھی ایک مشکل کام ہو جائے گا۔