لاہور: (روزنامہ دنیا) ماہ جولائی کے دوران پاکستان کے شمالی علاقے گلگت بلتستان میں ایک گلیشئرکے غیر معمولی تیزی کے ساتھ پگھلنے کے باعث سیلاب کی وجہ سے مقامی دیہی آبادی موت و زیست کے درمیان رہنے پر مجبور ہو گئی ہے۔
ایک مقامی باشندے شیر باز نے حسرت و یاس کے ساتھ بتایا کہ سیلابی پانی میرے گھر کو بہا لے گیا اور میں کچھ بھی نہ کرسکا، درحقیقت علاقے کے لاتعداد لوگوں کی نگاہوں کے سامنے ان کے گھر صفحہ ہستی سے غائب ہو گئے اور وہ بے بسی سے دیکھتے رہ گئے۔ وادی اشکومان میں کوہ ہندو کش سلسلے کے نشیب میں واقع گاؤں بدسوات میں جہاں بلند و بالا پہاڑی چوٹیاں برف سے ڈھکی ہوئی ہیں مقامی شہری سیلاب کے سامنے بالکل بے بس تھے۔
سیلابی ریلے میں مکانات، سڑکیں، پل، فصلیں اور جنگلات سب ہی کچھ بہہ گئے، ایک 30 سالہ دیہاتی جو چار بچوں کا باپ ہے، نے کہا کہ ہمارے پاس جو کچھ بھی تھا وہ سیلاب میں بہہ گیا، میں تو اس بات پر خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ ہم زندہ بچ گئے، ہر چند کہ بدسوات گاؤں کے قریب بہت سے گلیشئر واقع ہیں، لیکن مقامی باشندوں نے بتایا کہ ہم نے اپنی زندگی میں کبھی گلیشئر کو اس طرح ‘‘ پھٹتے ’’ ہوئے اور اس کی وجہ سے شدید سیلاب کو نہیں دیکھا۔
مقامی حکام نے کہا کہ وادی کے لوگوں کی جانیں اس تباہ کن سیلاب سے بچ گئیں تو اس کا سبب یہ تھا کہ مقامی باشندوں کو بروقت اس علاقے سے نکال لیا گیا تھا۔ ایک مقامی باشندے نے کہا کہ ہم چاروں جانب سے پہاڑوں اور کیچڑ میں پھنسے ہوئے ہیں۔ گلیشئر کا مرکز پاکستان کے محکمہ موسمیات کے مطابق کسی بھی دوسرے ملک کی نسبت پولر ریجن کے باہر پاکستان میں گلیشئرز کی تعداد دنیا کے تمام ممالک سے زیادہ ہے، محکمے کے مطابق ملک کے قراقرم، ہمالیہ اور ہندو کش کے علاقوں میں گلیشئر کی تعداد 7200 سے زیادہ ہے۔
محکمے کے افسران نے بتایا کہ انہی گلیشئرز کی بدولت ملک کے دریاؤں کا نظام جسے انڈس ریور سسٹم کہا جاتا ہے رواں رہتا ہے، تاہم گزشتہ 50 برس کے اعداد و شمار اکٹھے کئے گئے تو معلوم ہوا کہ تقریباً 120 گلیشئرز کو چھوڑ کر باقی تمام گلیشئرز مسلسل پگھلتے رہے ہیں، اس کا ایک بڑا سبب درجہ حرارت میں اضافہ ہے۔
جب گلیشئرز پگھلتے ہیں تو اطراف میں خودبخود جھیلیں بن جاتی ہیں جو پانی اور برف سے بھری ہوتی ہیں، ان جھیلوں میں اور ان کے اطراف میں چٹانیں اور مٹی کے تودے پھیلے ہوتے ہیں، خود بخود بن جانے والی یہ جھیلیں اس لحاظ سے نہایت خطرناک ہوتی ہیں کہ اکثر اوقات یہ پانی کا دباؤ برداشت نہیں کر پاتیں، ایسی صورت میں بہت بڑی مقدار میں پانی نہایت تیزرفتاری کے ساتھ باہر نکل کر سیلاب کی شکل اختیار کر لیتا ہے، یہ سیلاب نشیب میں واقع بستیوں کو تباہ و برباد کر دیتا ہے۔
ایسی ہی ایک نشیبی بستی کے باشندے شکور بیگ نے کہا کہ ماضی کی نسبت اب گلیشئرز کے پگھلنے کے واقعات بہت زیادہ ہونے لگے ہیں، اس لیے ہمیں ایسا لگتا ہے کہ ہم کسی بھی وقت قدرتی آفت کا شکار ہو سکتے ہیں، ایک 45 سالہ کاشتکار نے بتایا کہ میری ساری زندگی سیلابوں سے نمٹنے میں گزری ہے لیکن میں نے اس سے قبل اس قدر تیز رفتاری سے گلیشئرز کو پگھلتے ہوئے اور ان کی وجہ سے آنے والے سیلاب نہیں دیکھے۔
حکام نے سیلاب کے خطرے کو بھانپ کر بدسوات وادی کے تقریباً ایک ہزار باشندوں کو نکال کر ایک بلند مقام پر منتقل کردیا تھا جہاں ان سب کو عارضی کیمپوں میں ٹھہرایا گیا ہے، سیلاب سے متاثرہ ان دیہاتیوں کی مدد کرنے والے فلاحی ادارے آغا خان ایجنسی فارہیبی ٹیٹ نے جو فوجی جوانوں کے ساتھ اشتراک عمل کرتے ہوئے متاثرین کی امداد کر رہی ہے، نے بتایا کہ یہاں جو موسمی حالات ہیں ان میں تمام متاثرین کو ٹینٹ، اشیائے خوردنی، ادویہ اور دیگر اشیائے ضرورت پہنچانا خاصا مشکل کام ہے لیکن ہم ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں، انہوں نے بتایا کہ متاثرین بلند پہاڑوں، ان پہاڑوں سے نیچے آنے والے پانی اور ٹوٹی ہوئی سڑکوں کے درمیان پھنسے ہوئے ہیں۔
جنگلات کو نقصان پاکستانی محکمہ موسمیات کے سربراہ غلام رسول جو گلیشئر سے متعلق معاملات کے ماہر ہیں، نے خبردار کیا ہے کہ یہ تو محض آغاز ہے، اس علاقے میں گلیشئرزکے ٹوٹنے کا سلسلہ ابھی ختم نہیں ہو گا، بلکہ یہ جاری رہے گا کیونکہ یہاں لاتعداد گلیشئرز ایسے ہیں جو کسی بھی وقت ‘‘ پھٹ سکتے ہیں ’’۔ انہوں نے کہا ملک میں گزشتہ کئی برسوں سے جنگلات کے تحفظ یا ان میں موجود درختوں کی حفاظت کیلئے کچھ بھی نہیں کیا گیا، اس کوتاہی کی وجہ سے درختوں کی تعداد میں غیر معمولی کمی ہو گئی ہے، دوسری جانب موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات بھی ہوئے ، ان وجوہ کی بنا پر گرمی میں اضافہ ہوگیا اور گلیشئرز پگھلنے لگے، غلام رسول نے بتایا کہ گزشتہ 80 برس کے دوران گلگت بلتستان کے اوسط درجہ حرارت میں 1.4 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہو چکا ہے، انہوں نے بتایا کہ ان علاقوں کے برعکس سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے علاقوں میں اوسط گرمی میں صرف 0.6 ڈگری سینٹی گریڈ اضافہ ہوا۔
غلام رسول نے مزید بتایا کہ حکومت کی جانب سے جنگلات کی حفاظت میں ناکامی اور ملک میں لکڑی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے باعث درختوں کو غیر قانونی طور پر کاٹنے کا ظالمانہ عمل بڑے پیمانے پر جاری ہے، انہوں نے کہا کہ سب لوگ جانتے ہیں کہ ماحول میں موجود کاربن کی مقدار کو کم کرنے اور گرمی کو بڑھنے سے روکنے میں درختوں کا کردار نہایت اہم ہوتا ہے، اس کے باوجود جنگلات کی غیر قانونی کٹائی کو روکنے کیلئے خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے جارہے ہیں، انہوں نے مزید بتایا کہ گلوبل وارمنگ پہاڑی علاقوں پر براہ راست اثر انداز ہو رہی ہے، اس کا سب سے بڑا سبب جنگلات میں کمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماحول کو شدید گرمی سے بچانے کیلئے بڑے پیمانے پر مزید درخت لگانا لازمی ہے، اس کام میں ناکامی کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم ایسے حالات خود پیدا کر رہے ہیں کہ مزید گلیشئرز پگھلتے رہیں۔
خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان نے بتایا کہ صوبائی حکومت اس معاملے کو بہت اہمیت دے رہی ہے، وہ جنگلات کی حفاظت اور بڑے پیمانے پر مزید درخت لگانے کو بہت اہمیت دے رہی ہے، انہوں نے کہا کہ یہ ایک بڑا چیلنج ہے جس پر راتوں رات قابو نہیں پایا جاسکتا، انہوں نے بتایا کہ جو بستیاں گلیشئرز کے پگھلنے سے تباہی کا شکار ہو سکتی ہیں، ان کیلئے ‘‘ وارننگ سسٹم’’ نصب کرنے کا عمل شروع کیا جاچکا ہے، علاوہ ازیں ایسی آبادیوں کے باشندوں کو تربیت بھی دی جائے گی تاکہ وہ خود بھی سیلاب سے اپنا بچاؤ کر سکیں۔
اکثر متاثرین جو اپنا گھر بار چھوڑ کر عارضی کیمپوں میں پناہ لئے ہوئے ہیں نے کہا کہ ہمیں یہ پریشانی لاحق ہے کہ آخر ہم کب تک ان کیمپوں میں رہ سکتے ہیں، سیلاب کی وجہ سے نہ صرف ہمارے گھر بار بلکہ کھیتی باڑی سمیت ذرائع روزگار بھی تباہ ہو چکے ہیں، ہماری تو دعا ہے کہ اللہ ہمیں مزید سیلاب سے بچائے اور اتنی ہمت اور وسائل عطا کرے کہ ہم اپنی اور اپنے خاندان کی ضروریات کو پورا کرنے کے قابل ہوسکیں۔