لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) متوقع وزیراعظم عمران خان کی جانب سے پنجاب کو پانی پت کا میدان قرار دینے اور یہاں وزارت اعلیٰ کیلئے کرپشن کے الزامات سے پاک ایک کلین نوجوان لانے کا اعلان یہ ظاہر کر رہا ہے کہ وہ قومی سیاست میں پنجاب کی اہمیت و حیثیت کو سمجھتے ہوئے پنجاب میں اپنی حکومت کے قیام کے ساتھ یہاں حکومتی تبدیلی کے عمل کو ممکن بنانے اور دنیا کو دکھانے کا عزم رکھتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں کچھ پارٹی لائنز ڈرا کی ہیں اور اپنے اراکین اسمبلی کو ابتدا ہی میں بہت کچھ پڑھا اور سمجھا دیا ہے۔ لہٰذا اب دیکھنا یہ ہو گا کہ ان کا وہ آئیڈیل نوجوان کون ہو گا جس کو وہ پنجاب کی مسند اقتدار پر بٹھانا چاہتے ہیں اور پنجاب میں حکومتی تبدیلی کے عمل کیلئے اقدامات اور اصلاحات کیا ہیں جن کے نتیجہ میں وہ پنجاب سے خصوصاً شہباز شریف، ان کے حکومتی اقدامات اور کارکردگی کے اثرات ختم کر سکیں کیونکہ پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف نے محنت ، تگ و دو اور خصوصاً مفاد عامہ میں اپنے پراجیکٹس کے ذریعہ اپنا نام بنایا ہے اور خصوصاً پنجاب کے بڑے شہروں میں ان کے بڑے منصوبوں کی وجہ سے وہ یہاں مقبول رہے ہیں اور پنجاب کے انتخابی نتائج کو بھی دیکھا جائے تو شدید مشکل حالات کے باوجود پنجاب کی اکثریتی جماعت مسلم لیگ ن ہی بنی ہے لیکن آزاد اراکین کی تحریک انصاف میں شمولیت کے بعد تحریک انصاف کو حکومت سازی کا حق ملا ہے اور تحریک انصاف حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ گئی ہے۔
عمران خان نے در حقیقت کسی نوجوان اور صاف ستھرے چہرے کی بات کر کے دراصل ’’جوانوں کو پیروں کا استاد کر‘‘ کے فلسفے کی بات کی ہے ۔ عمران خان کے اس آئیڈیل نوجوان اور با صلاحیت وزیراعلیٰ کے اشارے کے ساتھ صوبہ بھر میں نئی بحث شروع ہو گئی ہے اور خبر تلاش کرنے والوں کی نگاہ نوجوان ممبران اسمبلی، صاف ستھرے چہرے اور امریکہ سے پڑھے لکھے نو منتخب ممبر پر ہے۔ سب سے زیادہ گردش کرنے والا نام چکوال سے نوجوان سیاستدان راجہ یاسر ہمایوں سرفراز کا ہے۔ یہ بھی امریکہ کی ریاست فلوریڈا سے انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کر کے ملک میں تبدیلی کی سیاست کیلئے کوشاں ہیں۔ دوسرا نام سابق صوبائی وزیر میاں اسلم اقبال کا ہے۔ یہ پی ٹی آئی کے صوبائی سطح کے فعال سیاسی اور نظریاتی رہنما ہیں۔ اس لسٹ میں تیسرا نام رحیم یار خان سے مخدوم خسرو بختیار کے بھائی ہاشم جوان بخت کا بھی ہے۔
کچھ کی رائے میں راجن پور سے منتخب ہونے والے سردار حسین بہادر دریشک بھی اس دوڑ میں شامل ہیں۔ یہ نصر اﷲ دریشک کے صاحبزادے ہیں۔ آخری دونوں نام روایتی سیاسی گھرانوں سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ ایک طرف تو یہ نام ہیں۔ دوسری طرف ابھی تک بعض ذمہ دار حلقے تحریک انصاف سنٹرل پنجاب کے صدر عبدالعلیم خان کے نام کو ابھی اس دوڑ سے خارج از امکان نہیں سمجھ رہے اور یہ حلقے علیم خان کی نیب میں مسلسل پیشیوں کے عمل کو در حقیقت ان کے خلاف تحقیقات کو سمیٹنے کی منظم کوششیں قرار دے رہے ہیں۔ تاکہ نیب کی جانب سے ان کو ملنے والے سرٹیفکیٹ کو ان کی اہلیت کی بنیاد بنایا جا سکے۔ یہ پھر عمران خان کیلئے بڑا امتحان بن کر سامنے آئے گا کیونکہ جماعت میں ایک مؤثر لابی کے ساتھ جماعت کے باہر بھی حلقے انہیں تختِ پنجاب پر حکمران دیکھنا چاہتے ہیں۔ پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں تعداد اور حاضری زبانِ حال سے بتا رہی ہے کہ وزیراعلیٰ کی دوڑ یکطرفہ بن چکی ہے اور اس کیلئے تحریک انصاف فیورٹ ہے۔
پنجاب میں مشکل حالات کا ذکر کر کے عمران خان نے حقیقت کو تسلیم کیا ہے اور بجا کہا ہے کہ اس صوبہ میں معاملہ ’’پانی پت‘‘ کے میدان میں لڑائی جیسا ہے۔ اگر تحریک انصاف نے پانی پت کے میدان میں اپنا حریف اپنے سیاسی مخالفین اور خصوصاً ن لیگ کو بنا لیا تو پھر تبدیلی کی منزل تک پہنچنا بے حد مشکل ہو گا۔ پھر سیاست کے میدان میں لڑائی بھی روایتی معاملات پر ہو گی اور پہلے سے مسائل میں گھری مخلوق کو مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آنا۔ اگر عمران خان اور ان کے نوجوان وزیراعلیٰ نے عوامی مسائل کو اپنا حریف جانا اور پھر پانی پت کی لڑائی بھی عوام کے شب و روز کو بہتر بنانے ، تعلیم، صحت کے شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے اور سب سے بڑھ کر مایوس انسانوں پر ترقی کے دروازے کھولنے میں صرف کر دی تو پھر یقیناً ایک بہترین وژن ہو گا اور پھر ایسا ہی پنجاب 2023 میں تحریک انصاف کے جمہوری انقلاب کی بنیاد بنے گا۔ وگرنہ محاذ آرائی اور روایتی سیاست میں اس جماعت کیلئے ن لیگ کی بھرپور اپوزیشن میں منزل تک پہنچنا محض دیوانے کا خواب ہو گا۔ن لیگ نے وقت کی رفتار اور نبض پر ہاتھ نہ دھرا اور کسی روایتی اور کرپشن سے داغدار چہرے کو صوبہ میں لیڈر بنایا یا موروثیت کو ترجیح دی تو پھر تبدیلی کا دھارا نون لیگ کے سیاسی گڑھ پنجاب سے بہت کچھ بہا کر لے جائیگا۔