22 سال کی جدوجہد کے بعد عمران خان پاکستان کے بائیسویں وزیرِاعظم منتخب

Last Updated On 17 August,2018 08:40 pm

اسلام آباد: (دنیا نیوز) پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان ملک کے بائیسویں وزیرِاعظم منتخب ہو گئے ہیں۔ انہوں نے 176 ووٹ حاصل کیے جبکہ ان کے مدمقابل ن لیگ کے صدر میاں شہباز شریف کے حصے میں 96 ووٹ آئے۔

قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر اسد قیصر کے زیرِ صدارت شروع ہوا جس میں وزیرِاعظم کے انتخاب کیلئے عمران خان اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف ایک دوسرے کے مدمقابل میدان میں اترے۔

سپیکر اسد قیصر نے وزیرِاعظم کے چناؤ کیلئے ایوان کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے معزز اراکین اسمبلی کو ہدایت کی کہ پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کو ووٹ دینے والے لابی نمبر ایک میں تشریف لے جائیں جبکہ شہباز شریف کو ووٹ دینے کے خواہشمند لابی نمبر دو میں چلے جائیں۔

ووٹنگ کے اس عمل میں عمران خان کو ووٹ 176 ملے جبکہ ان کے مدمقابل ن لیگ کے صدر شہباز شریف صرف 96 ووٹ حاصل کر سکے۔ رائے شماری کے اس عمل میں پیپلز پارٹی کے کسی رکن نے حصہ نہیں لیا جبکہ آصف علی زرداری ایوان کی کارروائی میں شریک ہی نہیں ہوئے۔ تاہم پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری دیگر پارٹی اراکین کے ہمراہ ایوان میں موجود رہے۔

سپیکر اسد قیصر نے جیسے ہی عمران خان کی کامیابی کا اعلان کیا تو ن لیگی اراکین نے سخت احتجاج اور شور شرابہ شروع کرتے ہوئے ایوان کو مچھلی منڈی بنا دیا، سپیکر بار بار اراکین کو تحمل کا مظاہرہ کرنے اور ایوان کا تقدس برقرار رکھنے کی تلقین کرتے رہے، اس موقع پر پی ٹی آئی اراکین نے بھی نومنتخب وزیرِاعظم کے حق میں نعرہ بازی کی۔

خیال رہے کہ قومی اسمبلی میں سپیکر کے انتخاب کے برعکس قائدِ ایوان کا انتخاب ڈویژن کے ذریعے ہوتا ہے، جس کے تحت اراکین اسمبلی اپنے اپنے امیدواروں کی لابی میں جاتے ہیں اور ان کی گنتی کے بعد سپیکر کامیاب امیدوار کے نام کا اعلان کرتا ہے۔

انتخاب کے بعد نئے قائد ایوان عمران خان 18 اگست بروز ہفتہ کو ایوانِ صدر میں اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے جہاں صدرِ مملکت ممنون حسین ان سے حلف لیں گے۔ عمران خان اس تقریب میں سادگی اختیار کرنے کی خصوصی ہدایات جاری کی ہیں۔

 

اس سے قبل اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو ن لیگ کے صدر میاں شہباز شریف سابق وزیرِ خارجہ خواجہ آصف اور دیگر رفقا کے ہمراہ اسمبلی ہال میں داخل ہوئے اور سب سے فرداً فرداً مصافحہ کیا۔ اس موقع پر عمران خان اپنی سیٹ سے اٹھے اور شہباز شریف کے پاس خود جا کر ہاتھ ملایا اور کچھ سرگوشی کی۔ اس کے بعد اجلاس کی کارروائی کا اجلاس تلاوت کلام پاک سے کیا گیا۔

اجلاس کی کارروائی شروع ہوتے ہی ن لیگ کے اراکین نے قومی اسمبلی میں احتجاج اور نعرہ بازی شروع کر دی۔ اس موقع پر پیپلز پارٹی رہنما خورشید شاہ نے سپیکر کی توجہ گیلری میں کھڑے لوگوں کی طرف دلاتے ہوئے کہا کہ اس سے ایوان کا تقدس مجروح ہو رہا ہے، پہلے ان کو باہر نکالا جائے، جس کے بعد سپیکر نے گیلری میں کھڑے لوگوں کو باہر نکل جانے کا حکم دے دیا۔ دوسری جانب سپیکر کی جانب سے انتخابی طریقہ کار سمجھانے کے وقت بھی مسلم لیگ ن کے ارکان اپنی نشستوں پر کھڑے ہو کر احتجاج کرتے رہے۔

وزیرِاعظم عمران خان قومی اسمبلی میں پہلا خطاب

نومنتخب وزیرِاعظم عمران خان کا قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس سے خطاب میں کہنا تھا کہ سب سے پہلے میں ان لوگوں کو کڑا احتساب کرونگا جنہوں نے اس ملک کو لوٹ کر کھوکھلا کر دیا۔ میں نے یہاں تک پہنچنے کیلئے 22 سال تک جدوجہد کی، نہ تو میرا کوئی سیاسی بیک گراؤنڈ تھا اور نہ مجھے کسی ملٹری ڈکٹیٹر نے نہیں پالا، میں اپنے قدموں پر کھڑا ہو کر اور کڑی محنت کر کے اس منصب تک پہنچا ہوں۔

انہوں نے اعلان کیا کہ میں ملک کو مقروض کرنے والوں کو نہیں چھوڑوں گا، میں وعدہ کرتا ہوں کسی قسم کا این آر او کسی بھی ڈاکو کو نہیں ملے گا، سب سے پہلے کڑا احتساب کرونگا۔

انہوں نے کہا کہ میں نے صرف 4 حلقے کھولنے کی درخواست کی لیکن اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی، اب میں اعلان کرتا ہوں کہ اپوزیشن جماعتیں جس بھی حلقہ کو کھولنا چاہیں تو الیکشن کمیشن کے پاس جا سکتی ہیں، عمران خان نے کہا کہ ایسا کرنے میں انھیں کوئی خوف نہیں کیونکہ عام انتخابات 2018ء اور ہماری جیت میں کسی قسم کی دھاندلی کا عمل دخل نہیں تھا۔

عمران خان نے اپوزیشن جماعتوں خصوصاً ن لیگ کے صدر شہباز شریف اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ میرے خلاف دھرنا دینا چاہتے ہیں تو انھیں کنٹینر میں دوں گا لیکن شرط یہ ہے کہ میں نے چار مہینے گزارے وہ صرف ایک مہینہ دھرنا دے کر دکھا دیں میں مان لوں گا کہ ان کا موقف درست ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں کرکٹ کی ڈھائی سو سالہ تاریخ کا واحد کپتان ہوں جو کھیل میں نیوٹرل ایمپائر لے کر آیا، میں انشااللہ الیکشن کے عمل کو ایسا بناؤں گا کہ ہارنے والے بھی اپنی شکست تسلیم کریں گے۔

شہباز شریف کا خطاب

شہباز شریف کا خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ کیسا الیکشن تھا جس میں الیکشن کمیشن مکمل طور پر ناکام ہوا، یہ کیسا الیکشن تھا جس میں آر ٹی ایس مشینیں بند کر دیں گئی، یہ کیسا الیکشن تھا جہاں دیہاتوں کے رزلٹ پہلے آئے، یہ کیسا الیکشن تھا جہاں 3 دن رزلت نہیں آئے۔

شہباز شریف نے الیکشن میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کیلئے پارلیمانی کمیشن بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ کمیشن 30 روز میں اپنی رپورٹ ایوان میں پیش کرے اور اس میں ملوث عناصر کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔

انہوں نے اعلان کیا کہ ہمارے مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو ہم سڑکوں پر احتجاج کیلئے نکلیں گے اور آپ کا اس وقت تک پیچھا نہیں چھوڑیں گے جب تک ہمارے سوالات کے جوابات ہمیں نہیں مل جاتے۔

بلاول بھٹو زرداری کا خطاب

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا قومی اسمبلی سے اپنے پہلے خطاب میں کہنا تھا کہ قومی اسمبلی عوام کی امنگوں کا گہوارہ اور ایک سپریم ادارہ ہے، مجھے اس کا رکن بننے پر فخر ہے۔ ہم تمام جماعتوں کو ساتھ لے کر ہم ایوان کا وقار بلند کریں گے۔

انہوں نے عمران خان کو وزیرِاعظم کا انتخاب جیتنے پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کسی مخصوص جماعت کے نہیں بلکہ تمام پاکستانیوں کے وزیرِاعظم ہیں، مجھے اُمید ہے کہ وہ ماضی کی نفرت انگیز سیاست کو دفن کر کے آگے بڑھیں گے، اگر وزیرِاعظم نے اگر عوام کے مسائل کو اپنا مقصد بنایا تو پیپلز پارٹی ساتھ دیں گی۔

چیئرمین پیپلز پارٹی نے عمران خان کے ماضی کے بیانات کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں جمہوریت کو چینلج کا سامنا ہے، آپ زندہ لاشوں کے وزیرِاعظم ہیں اور ان کے بھی جنھیں آپ نے گدھے اور جانور کہا

ان کا کہنا تھا کہ انتخابی بے ضابطگیوں کی فہرست طویل اور باعث شرمندگی ہے، تمام جماعتوں نے نتائج کو مسترد کر دیا ہے۔ فارم 45 کا نہ نکلنا، آر ٹی ایس سسٹم کا فیل ہونا اور پولنگ ایجنٹوں کو باہر نکالنا شرمندگی کا باعث ہے، ہم پارلیمانی کمیشن کے مطالبے کی حمایت کرتے ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری نے اجلاس کے دوران احتجاج پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کا احتجاج ان کا جمہوری حق ہے لیکن عوام ایوان میں تماشا پسند نہیں کرتے، جو تماشا دو بڑی جماعتوں نے کیا اس نے پوری قوم کو مایوس کیا۔