لاہور: ( سلمان غنی ) ڈپٹی کمشنر چکوال کے بعد ڈپٹی کمشنر راجن پور نے اپنے علاقے میں دو منتخب اراکین قومی اسمبلی کی جانب سے اپنے حلقوں میں سرکاری ملازمین خصوصاً محکمہ مال کے افسروں اور پٹواریوں کے تبادلوں کیلئے دباؤ پر اپنے حکام بالا خصوصاً چیف سیکرٹری، کمشنرز سمیت بعض اداروں کے ذمہ داران کی توجہ مبذول کرائی ہے اور منتخب اراکین اسمبلی کی جانب سے اختیار کئے جانے والے طرز عمل پر رہنمائی طلب کی ہے۔ موجودہ حکومت خصوصاً عمران خان کی جانب سے پاکستان سے مذکورہ روایتی کلچر کے خاتمہ کے ساتھ ایسے نئے پاکستان کی بات کی جا رہی ہے جس میں سرکاری ملازمین، انتظامی حکام اور پولیس افسروں کو سیاسی دباؤ بروئے کار لانے کے بجائے میرٹ پر کام کرنے اور اپنی کارکردگی کے حوالے سے جوابدہ بنایا جا رہا ہے۔ ایک طرف وزیراعظم عمران خان کا عزم اور دوسری جانب روایتی اراکین اسمبلی کا ضلعی انتظامی مشینری پر دباؤ اور محکمہ مال خصوصاً پٹواریوں کے تبادلوں کا عمل کیا ظاہر کرتا ہے ؟، کیا اس کلچر سے نجات ممکن ہے اور سرکاری حکام خصوصاً ڈپٹی کمشنرز کی جانب سے ایک جیسے واقعات پر ایک جیسا رد عمل اور ایک جیسے مکتوب کس امر کا شاخسانہ ہے۔
اس امر میں دو آرا نہیں کہ اراکین اسمبلی کی جانب سے سینئر افسران کی تعیناتیاں خصوصاً اپنے ایس ایچ او اور اپنے پٹواری کی تعیناتی ترجیحات میں شامل رہی ہے اور یہ سلسلہ آج سے شروع نہیں ہوا بہت پہلے سے جاری ہے۔ اس کلچر نے ملک میں رشوت خوری کو عام کرنے کے ساتھ عام آدمی کے مسائل میں کئی گنا اضافہ کیا ہے۔ تھانہ سے کسی کو انصاف ملتا ہے اور نہ ہی پٹواری سے بغیر جیب گرم کئے فرد کا حصول ممکن ہوتا ہے۔ یہی وہ گلا سڑا نظام تھا جس کیخلاف عمران خان نے آواز بلند کی اور مسائل زدہ عوام ان کے ساتھ آتے چلے گئے کیونکہ لوگ کچہری، تھانہ کلچر سے بہت تنگ تھے اور پٹواریوں نے بھی سارے سسٹم کو یرغمال بنا رکھا تھا۔ یہ پٹواری کلچر ہی ہے جو ارکان اسمبلی کے ڈیرے بھی چلاتے ہیں۔ عیاشیوں کا سامان بھی مہیا کرتے ہیں اور ارکان اسمبلی کی تائید حاصل کرنے کے بعد عام آدمی کی جیبیں کاٹتے نظر آتے ہیں اور کوئی ان کی پکڑ نہیں کر سکتا ، عملاً اس پٹواری کلچر نے سارے سیاسی سسٹم کو قابو کر رکھا ہے۔
یہی ہوا کہ لوگوں نے اس سسٹم کے خلاف رد عمل کے طور پر تحریک انصاف پر اعتماد کا اظہار کیا تو عمران خان کی حکومت بننے کے بعد جس تبدیلی کی توقع ظاہر کی جا رہی تھی اسے اب خود ان کے ارکان اسمبلی بھی ناکام بنانے پر تلے ہوئے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ارکان عمران خان کے تبدیلی کے نعرے کی بنا پر ان کے ساتھ نہیں آئے بلکہ بدلے ہوئے حالات میں اپنے انتخاب کو سیدھا کرنے کیلئے انہوں نے تحریک انصاف اور اسکی حکومت کا ساتھ دیا اور پاکستان میں ہونے والی سیاسی تبدیلی کے باوجود وہ اپنے روایتی طرز عمل، تھانہ کچہری اور پٹواری کلچر سے باہر آنے کو تیار نہیں، کسی بھی حکومت اور سسٹم کو چلانے کیلئے بنیادی طور پر دو فریق ہوتے ہیں۔ انتظامی مشینری اور سیاسی لوگ جو ملکر حکومتی معاملات چلاتے ہیں اور نظام وہی کامیابی سے چلتا ہے جس پر دونوں کا اتفاق رائے ہو اور معاملات آگے چلانے اور مسائل کو نمٹانے کا جذبہ دونوں میں موجود ہو لیکن آج کی صورتحال میں سول بیوروکریسی کی کوئی قیادت نظر نہیں آ رہی ہے اور دوسری جانب تبدیلی کی دعویدار حکومت کے پاس بھی ایسے ذمہ داروں کی واضح کمی محسوس ہو رہی ہے جو سیاسی سمجھ بوجھ کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاملات کا سیاسی حل نکالیں۔ پہلی دفعہ ایسا بھی دیکھنے میں آ رہا ہے کہ صوبہ کے چیف ایگزیکٹو کی جانب سے بلدیاتی اصلاحات کیلئے بلائے جانے والے اجلاس بارے خبریں آ رہی ہیں کہ اس کی صدارت وزیراعلیٰ اور سینئر وزیر کریں گے۔ یہ رجحان اچھے حالات کی نشاندہی نہیں کر رہا۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں گورننس کے خواب کو حقیقت کا رنگ دینے کیلئے جہاں سول بیورو کریسی خصوصاً پولیس کے ادارے کو اپنی کارکردگی اور خصوصاً عوام کے مسائل کے حل کے حوالہ سے جوابدہ بنانا ضروری ہے تو دوسری جانب ارکان اسمبلی کو بھی واضح ہدایات ہونی چاہئیں کہ وہ اپنے مینڈیٹ اور انتخابی جیت کو من پسند افسروں کی تعیناتیوں خصوصاً پٹواریوں کے تبادلوں کیلئے بروئے کار نہ لائیں اور اجتماعی مسائل کے حل کیلئے اپنا کردار ادا کریں، جہاں تک انتظامی مشینری کے فعال کردار کا تعلق ہے تو نئی حکومت کی آمد کے بعد ابھی تک معلوم نہیں کہ موجودہ چیف سیکرٹری اور آئی جی نے نئے سیٹ اپ کی آمد کے بعد یہاں رہنا ہے یا نہیں، انتظامیہ کے دیگر افسروں پر بھی یہ تلوار لٹکتی نظر آ رہی ہے۔ لہٰذا نئی حکومت کے قیام کے بعد ضرورت مؤثر، فعال اور متحرک انتظامی مشینری کی تھی۔ دو دن میں دو اضلاع کے ڈپٹی کمشنر زکی جانب سے ایک ہی طرح کے مکتوب یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ سول بیورو کریسی کے اندر ردعمل موجود ہے ا ور سول بیورو کریسی کے پاس ایسی لیڈر شپ بھی نظر نہیں آ رہی جو سول سروس کے ڈھانچہ کے مؤثر کردار بارے حکومت سے بیٹھ کر بات کرے اور اس کا حل نکالے۔
پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور پنجاب میں حکمران جماعت کے مقابلہ میں ایک بڑی اپوزیشن موجود ہے اگر انتظامی مشینری کے اندر منتخب حکومتی اراکین کے باعث رد عمل کا سلسلہ جاری رہا تو اس کا سیاسی نقصان تحریک انصاف کو اٹھانا پڑے گا۔ اس صورتحال کا نوٹس کون لے گا ؟ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔