لاہور: (سلمان غنی) وزیراعظم عمران خان نے بیورو کریسی کو سیاسی اثر و رسوخ اور ہر طرح کے دباؤ سے آزاد کروانے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ بیورو کریسی، ریفارمز ایجنڈے سے نہ گھبرائے۔ بیورو کریسی کی تنخواہوں کے سٹرکچر کا احساس ہے۔ تسلیم کرتا ہوں کہ بیورو کریٹ اپنی تنخواہ میں گزارا نہیں کر سکتے۔ غلطی کسی سے بھی ہو سکتی ہے، کام کریں کوئی غلطی بھی ہو گئی تو ساتھ کھڑا ہوں گا۔ احتساب کے بغیر ملک نہیں بچ سکتا۔ بیورو کریسی کی شکایات پر چیئر مین نیب سے بات کی ہے۔ انہیں کہا ہے کہ بیورو کریٹس سے تحقیقات میں انکی تذلیل نہ کی جائے۔ سول بیورو کریسی سے خطاب میں منتخب وزیراعظم عمران خان کے احساسات اور جذبات ظاہر کر رہے تھے کہ وہ اپنی حکومت ، اصلاحات اور مختلف شعبہ جات میں اقدامات کیلئے بیورو کریسی کاتعاون چاہتے ہیں جس کیلئے انہیں ہر طرح کے دباؤ سے آزاد کرنا چاہتے ہیں۔
کیا ایسا ممکن ہو پائے گا، سیاسی دباؤ سے آزادی کیا صرف بیورو کریسی تک محدود رہنی چاہئے ؟ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کو ترقی کی منزل پر پہنچانے میں کیا بیورو کریٹس کا بنیادی کردار تھا ؟ کیا بیورو کریٹس کو کسی بھی سطح پر جوابدہ نہیں ہونا چاہئے ؟ اور وہ کونسی وجوہات رہی ہیں جس بنا پر بیورو کریٹس اور دیگر ادارے سیاست زدہ ہوئے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ حکومتی عمل میں سول، بیورو کریسی کا بنیادی کردار رہا ہے ، وہ حکومتی پالیسیوں اور فیصلوں پر عملدرآمد یقینی بناتے ہیں، اور اس طرح سے حکومتیں چلتی ہیں۔ البتہ اس تاثر میں بھی حقیقت ہے کہ حکومتوں کی کامیابی اور ناکامی میں بھی بیورو کریٹس کا ہاتھ رہا ہے ، اور ان کے اعتماد اور اطمینان کے بغیر کوئی حکومت کامیابی سے نہیں چل پائی۔ جہاں تک وزیراعظم عمران خان کا یہ کہنا تھا کہ سول بیورو کریسی میں بگاڑ 1960ء کے بعد سے آیا اور یہ خراب ہوئی، کیونکہ 1947ء سے 1960ء تک کا عرصہ دیکھیں تو سیاسی محاذ پر سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا سلسلہ تو ہوگا لیکن اس وقت کے سیاستدانوں کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کرپٹ یا نااہل تھے۔ جن میں عبدالرب نشتر، چوہدری محمد علی، فیروز خان نون، مشتاق احمد گورنامی کا نام لیا جا سکتا ہے ۔ اور یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ بیورو کریسی ایک معصوم دوشیزہ کی طرح تھی جسے سیاستدانوں نے خراب کیا۔
عمران خان اداروں کی آزادی کی بات کرتے ہیں تو پھر وزیراعظم کا چیئرمین نیب کو ملاقات کیلئے بلانا اور بلا کر کہنا کہ بیورو کریٹس سے تحقیقات میں ان کی تذلیل نہیں ہونی چاہئے اور یہ عمل صرف بیورو کریٹس تک ہی محدود کیوں ، یہ بات خود سیاستدانوں یا دیگر اداروں کے ذمہ داران بارے کیوں نہیں کی جاتی۔ نیب خود آئینی ادارہ ہے اور اسے حکومتی ہدایات کے تابع نہیں ہونا چاہئے۔ البتہ اسے اس حوالے سے ضرور پابند کیا جانا چاہئے کہ اس کا تحقیقاتی عمل مخصوص مدت کے تابع اور شفافیت پر مبنی ہونا چاہئے اور کسی بھی حکومتی ذمہ دار یا سیاستدان یا حکمران پر الزامات کی تحقیقات کیلئے ایسے افسر کو لگایا جانا چاہئے جو اس تحقیقات کی اہلیت رکھتا ہو۔ جہاں تک تذلیل نہ کرنے کا سوال ہے تو کسی پر الزام یا تحقیقاتی عمل یا یہاں تک کہ اس کے خلاف ریفرنس بھی دائر کر دیا جائے تو اس کی بے عزتی کا اختیار کسی کو نہیں ہونا چاہئے ۔ بیورو کریسی ہمیشہ سیاست اور پارلیمنٹ کی چھتری کے نیچے کام کرتی اور پروان چڑھتی ہے، سیاسی تاریخ کی بڑی حقیقت یہ ہے کہ سیاستدانوں کی نا اہلیوں کے باعث بیورو کریسی کے مضبوط ہونے کا تاثر ابھرا اور اس کا فائدہ کچھ بیورو کریٹس نے بہت اٹھایا اور بہت ہی کم بیورو کریٹس ایسے دیکھنے میں آئے جنہوں نے خود کو حدود و قیود کا پابند رکھا اور قوانین اور ضابطوں کی پابندی کے اس عمل نے خود انہیں اپنے اداروں میں مضبوط بنانے کے بجائے کمزور بنا دیا اور خود سیاستدان اور حکمران ایسی شہرت کے حامل بیورو کریٹس کو اپنی حکومتوں کیلئے اثاثہ سمجھنے کے بجائے انہیں کھڈے لائن لگاتے رہے۔
سول بیورو کریسی کے اندر اس کی اقدار و روایات اور میرٹ کی بالادستی کی بجائے یہ حکومتوں کے رحم و کرم پر رہ گئی اور جونیئرز کو سینئرز کی پوزیشن پر بٹھا کر من مانیاں کرائی جاتی رہیں اور آج نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ خود وزیراعظم عمران خان کو الگ سے ان سے ملکر ان سے تعاون کے حصول اور نتائج کی فراہمی کیلئے تعاون مانگنا پڑ رہا ہے ۔ خدا کرے کہ عمران خان کی حکومت، سول بیورو کریسی ، پولیس اور دیگر اداروں سے سیاسی اثر و رسوخ اور دباؤ کی بیخ کنی کر پائیں۔ لیکن یہ بہت بڑا رسک ہوگا کیونکہ اس عمل کے نتیجہ میں ایک نئی نفسیاتی کیفیت طاری ہوگی۔ جس میں حکومت کو فائدہ کے امکانات زیادہ نظر نہیں آ رہے۔