لاپور: (تجزیہ: سلمان غنی) حکومت کی جانب سے اپنے سیاسی تبدیلی کے ایجنڈا کو آگے بڑھاتے ہوئے وزیراعظم ہاؤس سمیت اہم ترین انتظامی اور تاریخی عمارات کا کردار تبدیل کرتے ہوئے انہیں تعلیمی اداروں اور سیاحتی و ثقافتی مراکز میں تبدیل کرنے کا فیصلہ سامنے آیا ہے جو بظاہر تو حکومت کی کفایت شعاری مہم اور سیاسی تبدیلی کا منظر پیش کر رہا ہے جس کی طرف وزیراعظم عمران خان اپنے پہلے خطاب میں اشارہ کرچکے ہیں اور اپوزیشن میں رہتے ہوئے انہوں نے ان مراکز کو پاکستان کے قومی خزانہ پر بوجھ قرار دیتے ہوئے عوام اور حکمرانوں کے درمیان ایک رکاوٹ سمجھتے رہے ، لہٰذا ان تاریخی عمارات کا بنیادی کردار تبدیل کرنے کا عمل محض سیاسی تبدیلی یا مفادات کیلئے کیا جا رہا ہے یا اس کیلئے کوئی موثر قانون سازی بھی ہوگی کیا وزیراعظم ہاؤس سمیت اہم ترین اداروں کو یک جنبش قلم ختم کر دینا چاہئے ؟ کیا امن و عامہ اور سکیورٹی کی بری صورتحال کے پیش نظر منتخب حکمرانوں کو اپنی ذاتی یا غیر محفوظ رہائش گاہوں میں کاروبار مملکت چلانا چاہیے ؟ کیا ان اہم ترین قومی عمارتوں کے مستقبل کا فیصلہ بغیر کسی سیاسی مشاورت سے کرنا چاہئے؟۔
بلاشبہ اس وقت قوم عمران خان کی قیادت کو امید بھری نظروں سے دیکھ رہی ہے اور مستقبل قریب میں صورتحال بہتر ہونے کے اندازے بھی لگائے جا رہے ہیں۔ قوم پہلے دن سے کفایت شعاری اور حکمرانوں کے طرزِ زندگی کو بدلنے کے اعلانات پر کافی افاقہ محسوس کر رہی ہے اور لازمی طور پر معاشی طور پر بدحال قوم شاہانہ اخراجات کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی۔ عمران خان نے بجا طور پر قوم کی نبض پکڑی ہے۔ مگر اصل سوال اب بھی یہی ہے کہ حکمت عملی کیا ہے ؟ محض شورو غل اور چیخ و پکار اور پریس کانفرنسوں کے ذریعے ہم نے اپنے اہم ترین قومی اداروں اور عمارتوں کے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے ؟ یہ حکومت کا حق ہے کہ انہیں اپنی طرزِ حکومت کیا رکھنی ہے اور اقتدار کے اندر ان کا اپنا طرزِ زندگی کیا ہوگا۔ اس سلسلے میں عمران خان کی حساسیت بہت خوب ہے کہ غریب قوم کے نمائندے شاہی کروفر اور شاہانہ طرزِ زندگی کے لئے قومی خزانے پر بوجھ نہ بنیں۔ چونکہ اس وقت بحران ہمہ جہتی ہے اور تحریک انصاف کے پاس کرنے کو بہت کچھ ہے مگر پلان غیر واضح ہے اور حکمت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
گورننس محض پاپولر جذبات اور ردعمل کی نفسیات پر کاربند رہنے کا معاملہ نہیں ہے۔ حکومت کے سیاسی مخالفین بھی یہی کہتے ہیں کہ سنجیدہ پالیسی اور اقدامات کے نہ ہونے کی ناکامی اور شرمندگی سے بچنے کیلئے حکومت طرح طرح کی کفایت شعاری اور عوام میں مقبولیت کے فارمولے پر یقین رکھتے ہوئے وزیراعظم ہاؤس کی بھینسوں کا معاملہ بھی قوم کے سامنے لے آئی۔ یہ قوم پی ٹی آئی میں شامل بڑے سیاسی گھرانوں کا طرزِ زندگی بھی جانتی ہے اور ان کا حکومتی ماضی بھی۔ ان اقدامات کو صرف عمران کی ذات کی وجہ سے برداشت کر رہی ہے۔ اﷲ کرے کفایت شعاری کے یہ اقدامات دیرپا اور درست ثابت ہوں۔ مگر اس سلسلے میں قانون سازی کا سوچا تک نہیں گیا۔ یہ قومی ادارے ہیں یہ ادارے ہماری اجتماعی امانت ہیں۔ کیا حکومت مضبوط ترین اپوزیشن کی رائے قانون سازی میں شامل کرنا پسند کرے گی؟ کیونکہ کل کلاں کوئی اور جماعت برسراقتدار آ گئی تو پھر وزیراعظم ہاؤس وزراء اعلیٰ کے دفاتر اور گورنر ہاؤسز کا کیا ہوگا ؟ دوسرا اہم سوال اس وقت ملک کی سکیورٹی کی صورتحال کا ہے کیا ہمارا وزیراعظم کھلے بندوں میں پھر سکتا ہے ؟ یقیناً عمران خان صاحب سے کچھ بھی بعید نہیں مگر یہ ہمارے منتخب وزیراعظم کی رہائش اور حفاظت کا سوال ہے۔
اس ملک کا ایک گورنر مارا جا چکا ہے، وزیراعظم بے نظیر بھٹو کو بم دھماکے میں شہید کر دیا گیا۔ بہرحال اگر حکمرانوں کو عوامی سطح پر لانے کا ارادہ ہے تو پھر ان عمارات میں ایک جانب دفاتر رہنے دئیے جائیں اور دوسری طرف انہیں عوام کیلئے بھی کھول دیا جائے مگر موثر قانون سازی اور دیگر جماعتوں سے قابل قبول مشاورت کے بعد!