لاہور: (سلمان غنی) مسلح افواج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کا وزیرستان کا دورہ، دیر پا امن و امان کیلئے آپریشنز جاری رکھنے کا عزم اور دہشت گردی کو دوبارہ پنپنے نہ دینے کا اعلان ظاہر کر رہا ہے کہ فوج یکسو اور سنجیدہ ہے کہ دہشت گردی کی جڑیں کاٹنا ہیں اور دہشت گردوں کو ان کے انجام تک پہنچانا ہے۔
ایک روز قبل وزیراعظم عمران خان کی صدارت میں نیکٹا کے کردار کے از سر نو جائزہ کے ساتھ اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ دہشت گردی کے خلاف بڑے چیلنج میں کامیابی حاصل کریں گے۔ اس کے ساتھ انہوں نے انٹیلی جنس اداروں میں مؤثر رابطوں کی ضرورت پر زور دیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اور فوج کے درمیان اس امر پر اتفاق ہے کہ بنیادی فیصلے حکومت نے کرنا ہیں اور دہشت گردی کے خاتمہ میں فیصلوں پر عملدرآمد فوج اور اداروں نے کرنا ہے۔ لہٰذا سوالات یہ ہیں کہ دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے نیشنل ایکشن پلان پر مؤثر عملدرآمد کیونکر نہ ہو سکا اور آنے والے حالات میں دہشت گردی اور شدت پسندی کے خاتمہ کیلئے جس وِل کی ضرورت ہے کیا وہ موجودہ حکومت میں موجود ہے۔
مسلح افواج کے سربراہ اور اس ادارے کی سب سے بڑی ترجیح فاٹا کو ایک ترقی یافتہ علاقہ بنانا ہے۔ اور فاٹا کے صوبہ پختونخوا میں ضم ہونے کے پیچھے اصل قوت اس ادارے کی تھی۔ کیونکہ جب نارمل انداز میں اس علاقہ کو نہیں چلایا جائے گا تب تک یہاں سیاست سے لیکر معیشت اور طرز زندگی نارمل نہیں ہو سکتا۔ مگر کیا یہ سارا بوجھ فوج نے اٹھانا ہے ؟ یا منتخب حکومتوں خصوصاً وفاق اور اس پارٹی کی صوبائی حکومت کا بھی کوئی کردار ہے ؟ یقیناً یہ ایک زبردست فیصلہ ہوا تھا جو قیام پاکستان سے ایک خاص سٹیٹس رکھنے والا علاقہ غیر صوبہ خیبرپختونخوا کی انتظامی اور سیاسی دائرہ کار میں ضم ہوا تھا ، اور اسے پوری قوم کی تائید حاصل تھی۔ مگر فوج نے اسے شدت پسندی، انتہا پسندی اور دہشت گردی کے حوالے سے کنٹرول کرنے کے بعد کلیئر کرنا تھا جو فوج نے بخوبی کیا۔ آج بھی فوج اس دھرتی پر اپنے جوان اور گرم خون کے نذرانے پیش کر رہی ہے ۔ مگر یہاں سیاسی عمل کیوں بحال نہیں ہو سکا ؟ اس علاقے میں ترقی، خوشحالی، سیاسی عمل کی بحالی، سماجی سرگرمیوں کے ذریعے جنگ زدہ عوام اور علاقے کو باقی پاکستان کے قریب حکومتِ وقت نے لانا ہے ۔ اس کام کیلئے ایک اہم ترین فیکٹر ہماری قومی یادداشت سے محو ہوتا جا رہا ہے ۔ جسے ہم نیشنل ایکشن پلان کے نام سے جانتے ہیں۔
گزشتہ پانچ سال میں نیکٹا پر کم توجہ دی گئی۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں جن پر کئی زاویوں سے بحث ہو سکتی ہے مگر اصل حقیقت یہ ہے کہ وفاق سمجھتا رہا کہ صوبے اپنے حصے کا کام کرینگے جبکہ صوبے سمجھتے رہے کہ دہشت گردی اور اس سے جڑا امن و امان وفاقِ پاکستان کی ذمہ داری ہے اور یوں دو ملاؤں میں مرغی حرام والا معاملہ ہوا۔ نیکٹا کے ذریعے اگر نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل ہوتا تو اس میں سیاسی اور سماجی کے ذریعے معیشت اور معاشرت دونوں قبائلی علاقوں میں بحال ہو چکے ہوتے اور آج یہاں ملک کے دیگر حصوں کی طرح زندگی رواں دواں ہوتی۔ اب وزیراعظم نے بروقت معاملہ کی خرابی کی تشخیص کی ہے اور نیکٹا کے فعال کرنے اور اس کے کردار کی بخوبی ادائیگی کو اپنا فرضِ منصبی جانا ہے تو ایک مثبت اثر ہمیں دہشت گردی کے خلاف ہماری قومی کوششوں اور کاوشوں میں نظر آئیگا۔ فاٹا کی ترقی پر صوبہ خیبرپختونخوا اور وفاق دونوں سیم پیج پر ہیں اور دوسری طرف سول ملٹری قیادتیں زبردست انداز میں مؤثر رابطہ رکھتی ہیں تو پھر کوئی وجہ باقی نہیں رہنی چاہئے جس سے فاٹا میں بالخصوص اور پورے ملک میں بالعموم دہشت گردی کے خلاف جنگ اپنے کامیاب اختتام کو نہ پہنچے اور فاٹا میں ترقی کا عمل بحال نہ ہو اور اس کے ناراض پختون اور جنگ سے ستائے ہوئے شہری اور قبائلی عوام سکھ کا سانس نہ لے سکیں۔