کراچی: (دنیا نیوز) اورنگی ٹاؤن کا رہائشی اور فالودہ فروش عبدالقادر اچانک ارب پتی کیسے بنا؟ گتھیاں سلجھنے لگیں، ایف آئی اے نے اکاؤنٹ آپریٹ کرنے والے کا پتا لگا لیا۔
کراچی کے فالودہ فروش کی کہانی میں نیا ٹوئسٹ آ گیا ہے، پتہ چلا ہے کہ زمینوں کی الاٹمنٹ میں ملوث بمباٹ نامی شخص اکاؤنٹ سے چھیڑ چھاڑ کرتا رہا، 11 ماہ کے دوران 11 کروڑ 80 لاکھ جمع کرائے، دبئی میں اہم شخصیت کو کروڑوں روپے منتقل کرنے کا بھی شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق زمینوں کی الاٹمنٹ میں ملوث شبیر بمباٹ اور اس کے ساتھی عبدالقادر کے اکاؤنٹ کو آپریٹ کرتے تھے۔ بینک ریکارڈ اور عملے کے بیانات سے بھی اکاؤنٹ آپریٹ کرنے والے کے حوالے سے پوچھ گچھ شروع کر دی گئی ہے۔
تفتیش کاروں کو عبدالقادر کے اکاؤنٹ میں سرکاری افسر کی جانب سے رقم جمع کرانے کا بھی شبہ ہے۔ ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ فالودہ فروش کے اکاؤنٹ سے دبئی میں کروڑوں روپے منتقل کیے گئے۔
گزشتہ دنوں اورنگی ٹاؤن کے رہائشی فالودہ فروش کے نام پر کھولے گئے اکاؤنٹ میں سوا دو ارب روپے کی موجودگی کا انکشاف ہوا تھا جس کے بعد ایف آئی اے نے اس کا اکاؤنٹ منجمد کرا دیا تھا۔
ایف آئی اے نے گزشتہ روز کیس کی تحقیقات کا آغاز کرتے ہوئے اکاؤنٹ کھولنے پر بینک کے 5 افسروں کو پوچھ گچھ کیلئے ایف آئی اے سٹیٹ بینک سرکل طلب کیا تھا۔
خیال رہے کہ جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کی تحقیقات کے دوران کراچی میں فالودہ فروش کے اکاؤنٹ میں 225 کروڑ کے انکشاف پر ہلچل مچ گئی تھی۔ 500 روپے یومیہ کمانے والے محمد قادر کو اتنی بڑی دولت کا ایف آئی اے نے بتایا جس کے بعد سیکیورٹی اداروں نے فالودہ فروش کی سیکیورٹی بڑھا دی اور گھر کے باہر 4 پولیس اہلکار تعینات کر دیئے۔
اورنگی ٹاؤن میں 40 گز کے گھر میں رہائش پذیر محمد قادر نے بتایا اسے تو پتا بھی نہیں کہ کب اس کا اکاؤنٹ کھلا اور رقم کہاں سے آئی؟ اسے ایف آئی اے کے خط کے ذریعے پتا چلا اور پھر اسے طلب بھی کیا گیا۔
سرجانی ٹاؤن میں مکان خریدنے کی غرض سے ایک بینک اکاؤنٹ کھلوایا تھا لیکن وہ بھی تصویری بینک اکاؤنٹ تھا، اسے جب اپنے اکاؤنٹ میں اتنی بڑی رقم کی موجودگی کا پتا چلا تو اسے کسی قسم کی حیرانی نہیں ہوئی بلکہ وہ تو ریڑھی لے کر فالودہ فروخت کرنے کے لئے چلا گیا تا کہ دیہاڑی لگائی جا سکے۔ محمد قادر نے بتایا کہ وہ بالکل ان پڑھ اور انگوٹھا چھاپ ہے، اپنا نام بھی نہیں لکھ سکتا، انگلش میں دستخط کیسے کرے گا؟
روزنامہ دنیا سے گفتگو کرتے ہوئے محمد قادر نے بتایا چند سال قبل گلستان جوہر میں ایک پی سی او پر ملازمت کرتا تھا اور شناختی کارڈ وہاں جمع کرایا جو ملازمت چھوڑنے کے 4 روز بعد واپس دیا گیا، اس کی کاپی کب اور کہاں استعمال ہوئی، وہ کچھ نہیں جانتا، ممکن ہے کسی نے کاپی کر کے اکاؤنٹ کھولا ہو۔ اس نے بتایا کہ میں میڈیا پر خبریں چلنے سے اور محلے والوں کے سوالوں کا جواب دے دے کر تھک گیا ہوں۔
پولیس حکام کے مطابق بے نامی اکاؤنٹ کا کیس جو منی لانڈرنگ کیس میں تبدیل ہو چکا ہے، ممکن ہے یہ اسی طرز کا کیس ہو، جیسے اس سے قبل کمپیوٹر آپریٹر کے اکاﺅنٹ میں 8 ارب روپے کا انکشاف ہوا تھا تاہم ابھی تک اس حوالے سے کوئی حتمی بیان جاری نہیں کیا گیا۔
ذرائع کے مطابق فالودہ فروش کے اکاؤنٹ میں رقم ایک بزنس گروپ نے منتقل کی جس کو تفتیش کے لئے طلب کیا گیا ہے جبکہ محمد قادر کے اکاؤنٹ میں 225 کروڑ روپے 2014ء اور 2015ء میں منتقل ہوئے تھے۔
تفتیشی حکام کے مطابق محمد قادر کا بے نامی اکاؤنٹس کی طرز پر نیا کیس ہے جس کا منی لانڈرنگ سے تعلق نہیں، ایسے اکاؤنٹس مختلف بزنس گروپ ملک کے مختلف حصوں میں ٹیکس بچانے کے لئے کھولتے ہیں، اس نوعیت کے اکاؤنٹس کو ٹریڈ اکاؤنٹس کہا جاتا ہے جس کے نام پر اکاؤنٹ کھلتا ہے، اسے پیسے بھی دیئے جاتے ہیں، اس معاملے کی مزید تحقیقات جاری ہیں۔
دوسری جانب جے آئی ٹی نے مزید 10 بے نامی اکاؤنٹس کا پتا چلا لیا ہے جس کے بعد منی لانڈرنگ کے لئے استعمال ہونے والے اکاؤنٹس کی تعداد 40 ہو گئی ہے جن سے 10 ارب سے زائد رقم منتقل کئے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔
ذرائع کے مطابق 50 ارب روپے کے قریب رقم کی ہیر پھیر کی تفصیلات جمع کی جا چکی ہیں۔ حکام نے کہا کہ ناجائز دولت چھپانے کیلئے مافیا نے یہ طریقہ نکالا، شہری بینکوں میں اکاؤنٹ چیک کر لیں۔