لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) قومی انتخابات میں ایک دوسرے کے خلاف شدید ترین تحفظات اور مخالفت کا اظہار کرنے والی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان ضمنی انتخابات میں ایک دوسرے سے تعاون اور متحدہ اپوزیشن کا مجوزہ قیام یہ ظاہر کر رہا ہے کہ وہ کھیل جو کسی بھی منتخب حکومت کے خلاف ایک ڈیڑھ سال بعد شروع ہوتا نظر آتا تھا اس کا آغاز تحریک انصاف کی حکومت کے قیام کے ایک ڈیڑھ ماہ بعد ہی شروع ہو گیا ہے اور ماضی کی دونوں برسراقتدار جماعتیں حکمران جماعت تحریک انصاف کے امیدواروں کو پچھاڑنے کیلئے ایک دوسرے کی طرف دست تعاون بڑھا رہی ہیں اور اب دیکھنا یہ ہے کہ مل کر چلنے کا عمل کیا صرف ضمنی انتخابات میں کامیابی تک محدود ہے یا نئی بننے والی منتخب حکومت کو ایوانوں کے اندرا ور باہر کمزور کر کے کسی اپ سیٹ کی تیاری ہے۔ کیا حکومت مذکورہ اتحاد پر اثرانداز ہو سکے گی اور ایوانوں کے اندر اور باہر بننے والی نئی صف بندی کے اثرات ملکی حالات پر کیا ہوں گے۔
اپوزیشن اتحاد تو اس رات وجود میں آ گیا تھا جب من چاہے نتائج کیلئے پورے پاکستان سے نتائج کو روکا گیا اور ملبہ آر ٹی ایس پر ڈال کر خاموشی اختیار کر لی گئی۔ شروع میں اپوزیشن جماعتوں پر شکست اور ہار کا دکھ غالب تھا اور انتخابی میدان کی تلخیاں بھی تھیں تو بظاہر کوئی بڑا اتحاد نہیں بن سکا تھا اور رہی سہی کسر پیپلز پارٹی کی اپنے پارلیمانی قد سے بڑے فیصلوں نے پوری کر دی۔ جس کے نتیجہ میں وفاق اور پنجاب میں اپوزیشن کے ہاتھ شکست آئی۔ ہر لحاظ سے تتر بتر اپوزیشن کو خود حکومت نے سنبھلنے کا موقع فراہم کیا اور پے در پے یوٹرن’ کنفیوژن اور پہاڑ جیسے سخت حالات اور بحران نے نئی حکومت کے ہاتھ پاؤں پھلا دئیے اور یوں حکومت تعمیری بنیادوں پر کام شروع کرنے کے بجائے صرف ماضی کا آئینہ دکھاتی رہی اور مستقبل کا کوئی پلان اس کے ہاتھ نظر نہ آیا۔ دوسری طرف سٹیبلشمنٹ نے بھی اداروں کو بظاہر آگے رکھ کر سندھ میں آصف زرداری اور ان کے دوستوں کے خلاف کرپشن اور احتساب کی مہم چلا دی جس سے پیپلز پارٹی مجبور ہو گئی کہ فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ترک کرے اور میدان عمل میں ن لیگ کے ساتھ کھڑی ہو جائے۔
اپوزیشن کے اتحاد کا دروازہ ان ہی حالات نے کھولا اور اب حکومت نے مستقل مخالف سیاسی قوتوں کا فرنٹ اپنے خلاف بنوا لیا۔ حکومت تحمل اور صبر سے چلتی اور مخالف سیاسی قوتوں کو سنتی تو اتنی جلد محاز آرائی شروع نہ ہوتی۔ اب اپوزیشن جماعتیں اتحاد سے ضمنی الیکشن میں جیت جاتی ہیں تو پھر اقتدارکے کھیل کا پانسہ پلٹ سکتا ہے اور شاید بہت جلد ان ہاؤس تبدیلی/ تحریک عدم اعتماد کا باعث بن سکتی ہے۔ پہلے اپوزیشن کی پلاننگ حکومت کے ابتدائی سو دنوں کے بعد کارکردگی کو بنیاد بنا کر میدان عمل میں آنا تھا مگر تحریک انصاف کی جلدی نے حکومت مخالفین کا کام آسان کر دیا اور اب محاذ آرائی قومی سیاسی افق پر بڑھتی جائے گی۔ اب دیکھنا پڑے گا کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے اس اتحاد میں کتنی مخلص ہیں۔ پیپلز پارٹی کئی موقعوں پر اپنی سولو فلائٹ کے ذریعے ن لیگ کو سیاسی شرمندگی سے دوچار کر چکی ہے مگر اب حالات کھل کر دونوں جماعتوں سے سنجیدہ کمٹمنٹ کے حوالے سے درکار اپوزیشن کے حقیقی کردار کا تقاضا کر رہے ہیں۔ اب سیاسی منظرنامہ بتا رہا ہے کہ شہباز شریف اور بلاول بھٹو مل کر ایوان کے اندر حکومت کیلئے پریشانی کا باعث بن رہے ہیں ۔ یقینا اس کے اثرات ایوان میں دیگر جماعتوں کی پوزیشن پر بھی ہوں گے۔ جو جماعتیں بظاہر حکومت کے ساتھ کمزور کمٹمنٹ کے ساتھ کھڑی ہیں وہ ضمنی الیکشن کے نتائج کے بعد اپوزیشن کی طرف بھی ہاتھ بڑھا سکتی ہیں کیونکہ اتحادی حکومت اس وقت تک قائم رہتی ہے جب تک اپنے اتحادیوں سے سمجھوتے کرتی رہتی ہے۔
حکومت کو اس اتحاد سے سنجیدہ انداز میں نمٹناہوگا۔ اس کا واحد حل گورننس کے میدان میں بہتری اور ملکی سمت میں تبدیلی کا نظر آنا ہے ۔ درحقیقت فواد چودھری اور فیاض الحسن سٹائل کی محاذآرائی نے اپوزیشن کو بہت کچھ دینا ہے مگر اصل خسارہ منتخب حکومت کا ہوگا اگر اپوزیشن اتحاد نے سیاسی بحران کھڑا کر دیا۔ حکومت دھاندلی کے معاملے پر پارلیمانی کمیشن بنا کر محض وقت ضائع نہ کرے اور پی اے سی کی چیئرمین شپ کی روایات کو وسیع القلبی سے جاری رکھے تو بحران کو دنوں میں ختم کر سکتی ہے وگرنہ ایک مضبوط اپوزیشن کمزور حکومت کے پاؤں کی زنجیر ہوا کرتی ہے ۔ حکومت یہ سب کچھ کرنے میں بوجوہ ناکام رہی تو پھر سیاسی اپ سیٹ اسی پارلیمانی سال کے اندر بھی ہو سکتا ہے اور پارلیمنٹ کے باہر تو اپوزیشن اولین دن سے سرگرم ہے ۔ کسی بڑے بحران سے نمٹنے کا نسخہ صرف عوام کو ریلیف دینے میں ہے ۔ اگر حکومت ناکام رہی تو منتخب حکومت کے ساتھ کیا ہوتا ہے عوام اس سے لاتعلق رہیں گے ۔