لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) وزیراعظم عمران خان کی سیاست کا محور پاکستان میں کرپشن، لوٹ مار، بدعنوانیوں اور بے ضابطگیوں کاخاتمہ رہا ہے اور اس نکتہ پر قوم نے ان سے امیدیں اور توقعات قائم کیں کہ وہ کرپٹ عناصر سے نجات کے ذریعے پاکستان میں سیاسی تبدیلی کو یقینی بنا کر نئے پاکستان کی تصویر دنیا کے سامنے رکھیں گے اور اپنی حکومت کے ذریعے مسائل زدہ عوام کیلئے ریلیف کا بندوبست کر سکیں گے۔
گورنر ہاؤس میں انہوں نے وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے بعد اپنی پہلی کانفرنس میں لاہور کے صحافیوں کے تندوتیز سوالوں کا حقیقت پسندانہ جواب دیا لیکن ان کی پریس کانفرنس کا لب و لہجہ وزیراعظم سے زیادہ اپوزیشن لیڈر کا سا تھا۔ ان کی تنقید میں اخلاص، دکھ، عزم بھی تھا اور سیاسی محاذ آرائی سے بھرپور ارادہ بھی تھا۔ وزیراعظم اس طرح کے لب و لہجہ اور اقدامات سے ایک طرف قوم کو بحران سے نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں تو دوسری طرف بکھری اپوزیشن جوڑنے میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی خوب مدد کر رہے ہیں۔ اس پریس کانفرنس کی وجہ ان کی نظر میں پنجاب کے ‘‘نیلسن منڈیلا’’ کو گرفتار کرنے پر ردعمل تھا اور سب سے پہلے وزیراعظم نے پنجاب کے وزیراعلیٰ کا بھرپور انداز میں دفاع کیا۔ وزیراعظم نے انہیں تبدیلی کا نشان کیوں کہا ؟ وزیراعظم کو بار بار پنجاب کابینہ کی صدارت کیوں کرنی پڑ رہی ہے، وزیراعظم سیاسی محاذ آرائی کو خود کیوں دعوت دینا چاہتے ہیں؟ کرپشن کے خلاف قومی مہم ہی ہمارے معاشی بحران کا حل ہے ؟۔
ابھی تک اٹھائے جانے والے اقدامات پر کوئی بھی رائے ہو سکتی ہے مگر وزیراعظم کے اخلاص، کوشش اور عزم پر کسی نے انگلی نہیں اٹھائی۔ وزیراعظم کی گفتگو زبان حال سے بتا رہی ہے کہ ہمارے پاس کوئی اور پلان ہو نہ ہو کرپشن کے خلاف اقدامات، ارادہ اور عزم کی کوئی کمی نہیں۔ صورتحال کا صحیح اور بوقت تجزیہ یہی ہے کہ قومی دولت کی لوٹ کھسوٹ سے چوری کی گئی پھر اسے ڈالروں کے ذریعے غیر قانونی چینل کے ذریعے باہر بھیجا گیا اور یوں ملک کے ادارے تباہ ہو گئے اور ملک تمام سماجی اعشاریوں میں دنیا بھر میں ذلیل و رسوا ہو گیا۔ اس کے ذمہ دار صرف ن لیگی حکمران نہیں ہیں۔ قوم کے تمام طبقات اپنی اپنی توفیق کے مطابق اس ملک کے خزانے اور قومی اثاثوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اس صورت میں جب یکساں، بلاامتیاز اور شفاف سکروٹنی ہوگی، ہر قومی چور اب احتساب کے شکنجہ میں آنا چاہئے وگرنہ پھر معاشی مسائل کے حل میں ہمیں قرضے لے کر صرف سود ہی ادا کرنا ہے۔ آنے والے دنوں میں شاید موثر قانون سازی بھی ہوگی اور سیاسی سطح پر محاذ آرائی اور ایوان میں شور شرابہ بھی بڑھے گا۔ کیونکہ ان کا خیال ہے کہ نیب حکومتی اثرات سے آزاد ہے وگرنہ ابھی تک 50 بڑے نام قیدو بند میں ہوتے۔
بے رحم احتساب ہماری قومی ضرورت بن گیا ہے مگر ہم اسے سیاسی سیاق و سباق سے ہٹ کر بھی نہیں دیکھ سکتے۔ وزیراعظم نے اس ضمن میں اپنے وزیر اطلاعات فواد چودھری کا دفاع کیا اور قوم سے پوچھا کہ ڈاکو کو ڈاکو کا نام نہ دیا جائے تو پھر کیا کہا جائے ؟ اس کا مطلب اب محاذ آرائی صرف واک آؤٹ’ تقریروں اور پارلیمانی قراردادوں تک محدود نہیں رہے گی۔ اب صحیح معنوں میں ایوان کے اندر پانی پت کا محاذ بنے گا اور نوبت شاید تحریک عدم اعتماد تک نہ پہنچ جائے اور پنجاب کے صوبائی ایوان کا ماحول بھی یہی بنے گا۔ معیشت کو صرف کرپشن کی کمی نہیں بلکہ موزوں سیاسی استحکام بھی چاہئے جو اب شاید ملک میں ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے۔ دوسرا اہم نکتہ اس ایک ماہ میں پنجاب کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم کی دوسری مرتبہ موجودگی ہے اس کا مطلب بہرحال خرابی ہے یا آپس میں ٹیم کا موثر رابطہ نہ ہونا ہے ۔ گزشتہ کابینہ میٹنگ میں وزیراعظم نے 48 گھنٹوں میں نئے بلدیاتی نظام کی بات کی تھی مگر صوبائی انتظامیہ اس کو نافذ کرنا تو دور اس کے مسودے کی طرف ایک قدم بھی نہیں بڑھ سکی۔ صوبائی حکومت محض تجاوزات کے آپریشن کو شروع کر سکی ہے مگر ابھی تک کوئی بڑی کامیابی پنجاب کی حکومت کے دامن میں نہیں ہے۔
عمران خان نے وزیر اعلی پنجاب کوتبدیلی کی علامت قرار دیا اور اس طرح کے پسماندہ علاقے کی شخصیت کو وزیراعلیٰ کے سنگھاسن پر بٹھانے کو ہی تبدیلی کہا۔ وزیراعظم نے غیر متوقع طور پر کہا کہ جب تک پی ٹی آئی پنجاب کے اقتدار پر فائز ہے تب تک ٹیم لیڈر عثمان بزدار ہوں گے۔ یقیناً اس سے صوبائی بیورو کریسی کو اپنا قبلہ بدلنے میں آسانی ہوگی اور صوبے میں پھیلائی جانے والی قیاس آرائیوں کا گلا گھوٹنے میں مدد ملے گی اور خود تحریک انصاف کے اندر وزیراعلیٰ بننے کے کئی خواہشمندوں کی امیدوں پر پانی پڑے گا اور انہیں یکسوئی سے اپنی اپنی وزارتوں پر دھیان دینے کا موقع ملے گا۔ عثمان بزدار کو تبدیلی کا نشان قرار دینا بہرحال ایک عام آدمی کی سمجھ میں مشکل سے آئے گا کیونکہ انہوں نے محض دو ماہ پہلے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا اور سیدھا وزیراعلیٰ کے منصب پر جا پہنچے ۔ وزیراعظم کا لب و لہجہ اور بدن بولی صاف صاف بتا رہی ہے کہ وہ ‘‘ابھی یا کبھی نہیں’’ کے موڈ میں ہیں اور سیاسی محاذ آرائی کی انہیں کوئی پروا نہیں۔ سب اچھا ہے کے ماحول میں سیاسی بحران مزید بڑھ گیا تو کمزور حکومت لڑکھڑانے میں زیادہ دیر نہیں لگائے گی۔