لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) وزیراعظم عمران خان اپنی حکومت کے قیام کے بعد دوسری مرتبہ سعودی جا رہے ہیں جہاں وہ دنیا بھر کے سرمایہ کاروں خصوصاً ہائی ٹیک انڈسٹری کے ذمہ داران کی منعقدہ کانفرنس میں شرکت کے علاوہ سعودی شاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان و دیگر حکومتی ذمہ داران سے ملاقاتیں بھی کریں گے۔
عمران خان کے دورہ سعودی عرب کو پاکستان کو در پیش معاشی صورتحال میں سعودی عرب کے تعاون کے حوالے سے اہم قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ ماضی کی سیاسی تاریخ میں ہر مشکل وقت میں سعودی عرب نے پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ لہٰذا دیکھنا یہ ہو گا کہ سعودی عرب کا دورہ کتنی اہمیت کا حامل ہوگا۔ بیل آؤٹ پیکیج کے حوالے سے پیش رفت ہو سکے گی ؟ خصوصی دعوت، خصوصی پیکیج کا باعث بن سکتی ہے اور سرمایہ کاروں کی کانفرنس میں پاکستان کی قیادت کی شرکت کے بعد پاکستان میں سرمایہ کاری کے امکانات کیا ہیں ؟ سعودی عرب اور پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے سعودی عرب کے حوالے سے جذبات و احساسات کسی بھی دوسرے دوست ملک کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہیں اور یہی وجہ ہے کہ مشکل کی کسی بھی گھڑی میں سعودی عرب نے پاکستان کا ساتھ دیا۔ آج کی صورتحال کے تناظر میں کم از کم یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ سعودی عرب پاکستان کے لیے ادھار پٹرول کے بندوبست کے ساتھ بحرانی کیفیت میں کچھ مدد بھی کر سکتا ہے لیکن اسے بیل آؤٹ پیکیج قرار نہیں دیا جا سکے گا۔ کیونکہ آج کی صورتحال میں سعودی عرب خود بھی ایک مشکل صورتحال سے دو چار ہے اور خصوصاً امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان سرد مہری میں سعودی عرب پاکستان کے حوالے سے کوئی بڑی معاشی پیش رفت نہیں کرے گا۔ البتہ شاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں کوئی بریک تھرو ہو سکتا ہے جس کا فوری اعلان تو نہیں ہو گا لیکن اس کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہو جائیں گے۔
جہاں تک وزیراعظم عمران خان کے ہنگامی دورہ سعودی عرب کا تعلق ہے تو یہ اس صورتحال میں غیر معمولی اس لئے ہے کہ جس سطح کی کانفرنس ریاض میں ہونے جا رہی ہے اسے وزیراعظم عمران خان کی سطح سے نیچے کی لیڈر شپ یا وزیر خزانہ یا اقتصادی امور کے مشیر وزیر اٹینڈ کر سکتے تھے لیکن اصل ضرورت سعودی قیادت سے ملاقات کی تھی کیونکہ موجودہ صورتحال میں جب وزیراعظم عمران خان یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ ممکن ہے کہ ہم آئی ایم ایف کے پاس نہ جائیں تو اس کی بڑی وجہ سعودی عرب یا چین کی جانب سے کوئی مثبت سگنل کا ملنا ہے اور وزیراعظم عمران خان یہ سمجھتے اور جانتے ہیں کہ آئی ایم ایف سے کسی بیل آؤٹ پیکیج کی قیمت کیا ہے کیونکہ اس بیل آؤٹ پیکیج کا سارا ملبہ پاکستان کی مسائل زدہ اور مہنگائی زدہ عوام پر پڑے گا اور اگر معاشی میدان میں حکومت ڈلیور نہیں کر پائے گی۔ اور اگر ملک معاشی بحران سے نہیں نکلتا تو خود حکومت کے مستقبل کے لیے سوالیہ نشان کھڑا ہو جائے گا۔ لہٰذا حکومت معاشی محاذ پر نتائج کے لیے ہاتھ پاؤں مارتی نظر آ رہی ہے اور دیکھنا یہ ہو گا کہ پاکستان کے دوست پاکستان کو اس بحران سے نکالنے میں معاون بنتے ہیں یا بالآخر آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے۔
حالات و واقعات اور حقائق پر نظر دوڑائی جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے دوست سعودی عرب اور چین ہنگامی بنیادوں پر تو پاکستان کی مدد کر سکتے ہیں مگر مستقل بنیادوں پر بحران سے نمٹنے کے لیے آئی ایم ایف کا سہارا لینا پڑے گا لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ فی الحال حکومت ڈنگ ٹپاؤ کی حکمت عملی پر گامزن ہے۔ حکومت کے اندر کی کنفیوژن نے خود حکومتی کارکردگی کو متاثر کیا ہے اور جہاں تک دورہ سعودی عرب کے نتیجہ خیز ہونے کا سوال ہے تو اس مرتبہ سعودی قیادت سے ملاقات اور مذاکرات کے بعد کوشش ہونی چاہئے کہ مشترکہ اعلامیہ ضرور سامنے آ سکے تا کہ قوم کو پتہ چل سکے کہ پاکستان کا آزمودہ دوست سعودی عرب کتنا پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے تا کہ معاشی بحران کے خاتمہ میں مدد ملے اور معاشی محاذ پر پیدا شدہ بے یقینی اور بے حسی کا مداوا ہو سکے۔