دشمن سی پیک کیوں ہضم نہیں کرپا رہا

Last Updated On 24 November,2018 08:44 am

لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) کراچی میں چین کے قونصلیٹ پر دہشت گردوں کے حملہ سے ایک بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ دشمن پاک چین تعلقات اور خصوصاً سی پیک کو ہضم کرنے کیلئے تیار نہیں اور سمجھتا ہے کہ اگر سی پیک پر اس کی سپرٹ کے مطابق عمل درآمد ہو گیا تو پاکستان کو اقتصادی خود انحصاری کی منزل پر پہنچنے سے روکا نہیں جا سکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی چینی انجینئرز کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے تو کبھی چینی سفارتکار اور قونصلیٹ ان کا ہدف بنتے ہیں۔

دیکھنا ہوگا کہ کون ہے جو پاک چین تعلقات اور سی پیک کو ٹارگٹ کر رہا ہے۔ ٹارگٹ کرنے والوں کے مقاصد کیا ہیں ؟ یہ مائنڈ سیٹ ایکسپوز ہوگا ؟ اور کیا دشمن اپنی چالوں میں کامیاب ہوگا ؟ جہاں تک سی پیک کی پاک چین تعلقات میں اہمیت کا سوال ہے تو یہ سنگ میل ہے اس سے نہ صرف چین کے روابط دنیا تک وسیع ہوں گے وہاں پاکستان بھی ترقی و خوشحالی کے مراحل طے کرے گا اور یہی وجہ ہے کہ جب سے سی پیک کا معاہدہ ہوا امریکہ اور بھارت اس پر اپنے شدید تحفظات ظاہر کرتے نظر آئے ہیں۔ امریکہ سمجھتا ہے کہ سی پیک پر اس کی سپرٹ کے مطابق عمل درآمد ہوتا ہے تو نہ صرف پاکستان داخلی طور پر مستحکم ہوگا بلکہ وہ اس کی دسترس اور اثر سے نکل جائے گا تو دوسری جانب چین کو بڑی اقتصادی قوت بننے سے روکا نہیں جا سکے گا جبکہ بھارت کی آنکھ میں سی پیک اس لئے کھٹک رہا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ نیوکلیئر پاور بننے کے بعد دفاعی حوالے سے وہ پاکستان کو چیلنج نہیں کر سکتا تو سی پیک پایہ تکمیل پر پہنچنے کے بعد پاکستان جیسے ملک کی اہمیت و حیثیت بڑھے گی اور ترقی کی دوڑ میں وہ بھارت کو پیچھے چھوڑ سکتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ امریکی آشیرباد سے بھارت اور افغان انتظامیہ مل کر علاقائی طور پر دہشت گردی اورشدت پسندی کو ہوا دے رہے ہیں، بھارت پاکستان کو اندرونی طور پر غیر مستحکم کرنے کیلئے علیحدگی پسند اور شدت پسند تنظیموں کو اسلحہ اور فنڈز فراہم کرتا ہے۔ جبکہ دوسری جانب مغربی سرحد پار سے دہشت گرد اور ان کے آلہ کار پاکستان خصوصاً پختونخوا اور بلوچستان کو ٹارگٹ کئے ہوئے ہیں، افغانستان میں دہشت گردی کی بڑی وارداتوں کی روک تھام میں ناکامی کے بعد پاکستان کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے، اس حوالے سے دشمن کا مائنڈ سیٹ بڑا کلیئر ہے۔ دشمن وہی ہے جو پاکستان کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھنا چاہتا۔ دشمن وہی جو سمجھتا ہے کہ پاکستان اقتصادی ترقی و خوشحالی کے عمل پر سنجیدگی سے کاربند ہے لہٰذا اس کی منزل کھوکھلی کی جائے۔ دشمن وہی جو سی پیک کی اہمیت سے واقف ہے اور جانتا ہے کہ اس سے پاکستان اقتصادی خود انحصاری سے ہمکنار ہوگا لہٰذا پاکستان کے خلاف پراکسی وارز کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ اس صورتحال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے اندر اتحاد و یکجہتی قائم ہو اور ملک کے اندر سیاسی استحکام قائم کر کے یہاں اقتصادی ترقی کے حوالے سے یکسوئی قائم کی جائے۔ اچھی بات ہے کہ کراچی میں قونصلیٹ پر حملہ پر حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے رد عمل ظاہر کر رہا ہے کہ کم از کم ان معاملات اور تعلقات پر پاکستان کے اندر یکسوئی قائم ہے۔

وزیراعظم عمران خان اس حملے کو پاک چین معاشی اور سٹریٹجک تعلقات کے خلاف سازش قرار دیتے ہیں تو اپوزیشن لیڈر مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کا کہنا ہے کہ پاک چین دوستی دشمن کو کھٹکتی ہے۔ سی پیک کا منصوبہ پاکستان کو ترقی کی منزل پر لے جائے گا لہٰذا یہ جذبہ اور ولولہ سی پیک تک محدود نہیں رہنا چاہئے۔ اسے پاکستان کی معاشی صورتحال تک وسیع تر ہونا چاہئے اور خصوصاً جب اپوزیشن لیڈر اسمبلی کے فلور پر ملکی معیشت کیلئے چارٹر پر زور دیتے ہیں تو حکومت کو بھی اس حوالے سے آگے بڑھنا چاہئے۔ پاکستان اقتصادی حوالے سے مضبوط ہوگا تو غربت، جہالت اور پسماندگی کا خاتمہ ہونے سے شدت پسندی و دہشت گردی ختم ہوگی۔ جب تک سیاسی قوتیں قومی ایجنڈے پر اتفاق رائے نہیں کرتیں تب تک آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔ چینی قونصلیٹ پر حملہ روکنے میں پولیس کے کردار کو سراہنا ضروری ہے۔ دو پولیس کے جوانوں نے شہادت حاصل کر لی مگر دشمن کو اپنے مطلوبہ ہدف تک پہنچنے نہیں دیا۔ یہ عمل ظاہر کرتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف فوج ہی نہیں پولیس سمیت پاکستان کے دیگر ادارے بھی بھرپور انداز میں سرگرم عمل ہیں جبکہ حساس اداروں نے دہشت گردوں کا سراغ لگا کر اپنی اہلیت ظاہر کر دی ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارے اداروں میں یکسوئی اورسنجیدگی ہے، وہ اس چیلنج سے نمٹنے کیلئے فوکس ہیں۔

جہاں تک لوئر دیر اور کلایا بازار میں دھماکہ اور اس کے نتیجہ میں 30 قیمتی جانوں کے ضیاع کا تعلق ہے تو اس کے حوالے سے اطلاعات یہی آ رہی ہیں کہ اس کے ڈانڈے سرحد پار سے ملتے ہیں کیونکہ کابل اور افغان علاقوں میں بین الاقوامی فورسز کی موجودگی کے باوجود وہاں حکومتی رٹ نظر نہیں آتی، اس صورتحال سے توجہ ہٹانے کیلئے سرحد پار ایسی وارداتیں پلان کی جاتی ہیں، دہشت گردی کا یہ سلسلہ ایک وقفہ کے بعد شروع ہوا ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ ہمیں الرٹ رہنا ہوگا۔ آنکھیں کھلی رکھنا پڑیں گی اور دشمن کے عزائم کو سمجھنا پڑے گا، دہشت گردی کے خلاف بڑی جنگ کے آخری مراحل میں ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے اندر محاذ آرائی، تناؤ اور کشمکش کا خاتمہ کیا جائے، دشمن اور اس کے پیدا کردہ چیلنجز سے نمٹنے کیلئے قومی جذبے اور ولولہ کو بروئے کار لایا جائے۔ یہ بالکل ممکن ہے کہ اگر حکومتیں، سیاسی جماعتیں اور ادارے مل کر قومی مفادات کے تحفظ اور اپنی بقا و سلامتی کے حوالے سے یکسو ہوں تو مطلوبہ نتائج بھی مل سکتے ہیں اور ہم ترقی و خوشحالی کی منزل پر بھی پہنچ پائیں گے لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ ہم اپنے اپنے سیاسی مفادات کے حوالے سے ایک ایک قدم پیچھے اور قومی مفادات کی جانب ایک ایک قدم آگے بڑھیں تو پاکستان کو درپیش ہر طرح کے خطرات سے پاک کیا جا سکتا ہے۔
 

Advertisement