لاہور: (صبغت اﷲ چودھری) تین ماہ کے دوران ڈالر کی شرح تبادلہ میں 20 روپے اضافے سے خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد میں لاکھوں افراد کا اضافہ ہو گیا۔
وزارت منصوبہ بندی کی تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ساڑھے 5 کروڑ یعنی 29.5 فیصد آبادی خط غربت کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے، دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کے نتیجے میں پاکستان کا 10 فیصد بالائی طبقہ مجموعی آمدنی کے 27.6 فیصد حصے پر قابض ہے، جبکہ نیچے والے 10 فیصد لوگوں کے حصے میں مجموعی آمدنی کا صرف 4.1 فیصد آتا ہے، ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹس کے مطابق پاکستان میں 4 ڈالر یومیہ سے کم کمانے والے افراد خط غربت کے نیچے تصور کئے جاتے ہیں۔
اس وقت پاکستان میں کم از کم ماہانہ اجرت 16 ہزار 400 ہے جس کے مطابق ایک مزدور روزانہ 539 روپے کماتا ہے، جو کہ ڈالر کی موجودہ شرح تبادلہ کے تحت 3.9 ڈالر بنتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ پاکستان میں کم از کم یومیہ اجرت لینے والے لاکھوں افراد خط غربت کے نیچے دھکیل دئیے گئے ہیں، اقتصادی ماہرین کے مطابق روزانہ 539 روپے کمانے والے افراد لوئر کلاس، ایک ہزار روپے تک کمانے والے لوئر مڈل، ایک ہزار سے دس ہزار روپے روزانہ یعنی تین لاکھ روپے مہینہ تک کمانے والے افراد مڈل کلاس میں آتے ہیں جبکہ اس سے اوپر پاکستان کا وہ حکمران طبقہ ہے جو مجموعی آبادی کا 5 فیصد ہے۔
ان اعداد و شمار کے مطابق مجموعی آبادی کے 40 فیصد افراد معمولی اتار چڑھاؤ کے نتیجے میں لوئر اور مڈل کلاس کے درمیان لٹکے رہتے ہیں، علاوہ ازیں عالمی تعریف کے مطابق پاکستان میں خط غربت کی تعریف پر پورا نہ اترنے والے کروڑوں افراد کثیرالجہتی غربت کا شکار ہیں جس کے تحت لوگوں کے پاس صحت، تعلیم، روزگار اور انصاف کی بنیادی سہولتیں میسر نہیں۔ 2016 ء کے ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس کے مطابق پاکستان 0.550 کے ساتھ جنوبی ایشیا میں کم ترین سطح پر یعنی بنگلہ دیش سے بھی نیچے ہے۔ اس حوالے سے ماہر معیشت ڈاکٹر قیس اسلم کا کہنا ہے کہ ڈالر اور پٹرول مہنگا ہونے سے زندگی گزارنے کی قیمت بڑھ جاتی ہے جسے اقتصادی زبان میں ’’کاسٹ پشڈ انفلیشن‘‘ کہتے ہیں، اس کے نتیجے میں عام استعمال کی اشیا کی قیمت بھی بڑھ جاتی ہے۔