لاہور: (سلمان غنی) وفاقی کابینہ نے منی لانڈرنگ سے متعلق جے آئی ٹی کی رپورٹ میں شامل سابق صدر آصف علی زرداری سمیت 172 افراد کے نام ای سی ایل میں ڈالنے اور آصف زرداری، بلاول بھٹو زرداری اور فریال تالپور کے پاسپورٹ ضبط کرنے کا بڑا اعلان کر کے قومی سیاست میں مؤثر احتسابی عمل کے حوالے سے ہلچل پیدا کر دی ہے۔
وزیر اطلاعات فواد چودھری کا کہنا ہے کہ آصف زرداری اس عمل کو سنجیدگی سے لیں۔ انہیں آنے والے دنوں میں اس کا اندازا ہو جائے گا کہ یہ پرانا پاکستان نہیں۔ البتہ انہوں نے پی ٹی آئی کے حوالے سے کہا کہ پی ٹی آئی پر زبردستی کے مقدمات بنائے گئے، ہیلی کاپٹر کیس میں بھی کچھ نہیں۔ حکومت کی جانب سے کیا جانے والا یہ بڑا اعلان کیا ظاہر کرتا ہے کہ مسلم لیگ ن کے بعد پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ کے خلاف مقدمات کی بھرمار کے اثرات کیا ہوں گے ؟ کیا آصف علی زرداری اور ان کی جماعت حالاتِ مقدمات کا مقابلہ کر پائے گی؟ سیاسی محاذ پر بڑھتا ہوا درجہ حرارت ملکی معیشت کو متاثر تو نہیں کرے گا ؟ کیا ملک میں جاری احتسابی عمل کو مؤثر ، مضبوط اور بلا امتیاز قرار دیا جا سکتا ہے ؟ دونوں بڑی پارٹیاں اپنی لیڈر شپ کے خلاف مقدمات پر کیسا رد عمل ظاہر کر پائیں گی؟۔
جہاں تک حکومت کی جانب سے آصف زرداری سمیت 172 افراد کے نام ای سی ایل پر ڈالنے اورزرداری، بلاول اور فریال تالپور کے پاسپورٹ ضبط کرنے کا تعلق ہے تو یہ عمل ظاہر کرتا ہے کہ ملک میں جاری احتسابی عمل اب خود حکومتوں کی دسترس میں بھی نہیں رہا یہ عمل ریاستی اداروں کے دباؤ پر ملک کے وسیع تر مفاد میں شروع کیا گیا اور حکومت بھی اس دباؤ کے تحت وہ سب کچھ کرنے پر مجبور ہے جو ادارے اور عدالتیں چاہ رہی ہیں کیونکہ عملاً منتخب حکومت کو اتنا مضبوط قرار نہیں دیا جا سکتا جتنے بڑے اقدامات اس کی جانب سے شروع ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بھی اختیار کے حوالے سے کسی غیر مرئی دباؤ کا شکار ہے جس سے برسرپیکار ہونے کا تصور بھی نہیں ہو سکتا۔ گو کہ حکومتی ترجمان یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ ان کے خلاف مقدمات زور زبردستی کے تھے۔ لیکن حالات کا رخ بتا رہا ہے کہ سارا احتسابی عمل طے شدہ ایجنڈا کے مطابق اپنے وقت پر ہو رہا ہے اور سب کیلئے ٹائمنگ طے ہے اور اگر حکومت میں بیٹھے بہت سے ملزموں کے خلاف قانون کا شکنجہ کسا نہیں جاتا تو پھر سیاسی محاذ پر ایسا تاثراور رد عمل ضرور نمایاں ہوگا کہ احتسابی شکنجہ صرف اپوزیشن کے خلاف کسا جا رہا ہے جو احتساب کے عمل اور خود نیب کی ساکھ پر اثر انداز ہوگا۔
چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال اپنے دوروں کے دوران بریفنگز میں یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ دھمکیوں سے ہمیں ڈرایا نہیں جا سکتا۔ اپنی کارکردگی سے پراپیگنڈے کا جواب دیں گے، پختونخوا میں بھی میگا کرپشن کیسز کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ انہیں منطقی انجام پر پہنچائیں گے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان پر بھی دباؤ ہے لیکن یہ دباؤ بلا امتیاز احتساب کیلئے ہے، انہیں بھی اب بلا امتیاز احتساب کا عملی ثبوت دینا ہوگا۔ پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ کے مقدمات کے اثرات بہت غیر معمولی بھی ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ مسلم لیگ نواز کی سیاسی تاریخ تو اس حوالے سے زیادہ متاثر کن نہیں ہے مگر پیپلز پارٹی محاذ آرائی کی ایک پرانی تاریخ رکھتی ہے اور اسے دوہرا بھی سکتی ہے۔
پیپلز پارٹی کرپشن اور الزامات کے جواب میں نظریاتی نقطئہ نظر میں جواب دیتی ہے۔ وہ جمہوریت، صوبائی خود مختاری اور وفاق پاکستان کا مقدمہ لڑنا شروع کر چکے ہیں۔ اسی لیے وہ ‘‘سلیکٹڈ وزیراعظم’’ اور پراکسی جمہوری حکومت اور لاڈلے وزیراعظم کے طعنے پسِ پردہ قوتوں کو دے رہے ہیں ، عوام کو میدان میں رہنے کی اہمیت باور کرا رہے ہیں۔ کیونکہ یہ جے آئی ٹی رپورٹ پیپلز پارٹی قیادت کیلئے ایک ڈراؤنے اور بھیانک خواب سے کم نہیں۔ ان کا رد عمل ظاہر کر رہا ہے پلوں کے نیچے سے بہت سا احتسابی پانی گزر چکا ہے اور شاید ان کی قیادت کو دیوار سے لگانے کا عملی کام اپنے اہم ترین اور فیصلہ کن مرحلے پر پہنچ چکا ہے۔ دوسری جانب سیاسی محاذ پر پی ٹی آئی الیکشن کمیشن جا چکی ہے کہ آئینی طور پر آصف زرداری کو نا اہل کرایا جا سکے تا کہ احتساب کے غیر معمولی اقدامات میں کوئی بچت ہو بھی جائے تو آرٹیکل 62 ون ایف کی تلوار چل جائے۔ پیپلز پارٹی کی ان حالات میں مقابلہ کرنے کی پوزیشن کمزور ہے کیونکہ آصف زرداری کا دفاع سندھ میں تو شاید ہو سکتا ہے مگر ایک ملک گیر تحریک کرپشن کے الزامات کے خلاف چلانا پیپلز پارٹی کے بس میں نہیں۔
پیپلز پارٹی اس وقت سندھ کارڈ، یکطرفہ احتساب اور بحران میں پھنسی ن لیگ کا کندھا استعمال کرنا چاہے گی تا کہ ملک کے اہم ترین سیاسی حلقوں اور عمران حکومت کو پریشان کیا جا سکے ۔ پیپلز پارٹی قومی اسمبلی میں محاذ آرائی اور ن لیگ سے مل کر تحریک عدم اعتماد کی راہ ہموار کر سکتی ہے ۔ مگر کرپشن کے خلاف جو کچھ ہو رہا ہے او رجو بھی قوت کرا رہی ہے وہ ایوان میں بھی غیر محسوس انداز میں موجودہ حکومت کو بحران سے نکال لے گی۔ملک میں گرفتاریاں، کرپشن کی بلند و بانگ آوازیں ، مہنگائی اور آئے روز بڑھتے ٹیکس عام آدمی کے ساتھ ساتھ سرمایہ کاروں کو بھی پریشان کر رہی ہیں۔ لہٰذا معیشت کا اس بحران میں سنبھل جانا معجزہ ہوگا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کرپشن کے خلاف مہم میں دلچسپی رکھنے والے طاقتور ادارے پاکستانی معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے خود دوست ممالک سے رابطے میں ہیں۔ اسی لیے ہمارے دوست ممالک سے تاریخی اور برادرانہ تعلقات بڑی تیزی سے معاشی تعلقات میں بدلتے جا رہے ہیں۔ اب آخر میں صورتحال کو مجموعی طور پر دیکھا جائے تو احتساب ہو رہا ہے ، گرفتاریاں ہو رہی ہیں اور بھی متوقع ہیں۔ کرپشن مخالف نعرے زبان زدِ عام ہیں اور حکومتی گورننس کا مرکزی نقطہ بھی یہی ہے مگر احتساب یکطرفہ بھی ہے اور امتیاز سے بھرپور بھی ہے ۔ ایسا احتساب سیاسی بگاڑ توضرور پیدا کرے گا مگر ساتھ ساتھ ہماری قومی یکجہتی اور صوبائی تفریق کو بھی بڑھائے گا۔