کشمیریوں کیلئے طلوع سحر کب ہوگی؟

Last Updated On 05 February,2019 08:54 am

لاہور: (روزنامہ دنیا) ملک بھر میں آج کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا دن منایا جا رہا ہے، دوسری جانب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی مقبوضہ سری نگر کا دورہ کر رہے ہیں، مقبوضہ کشمیر کے عوام نے بڑے پیمانے پر احتجاج اور ہڑتال کر کے ایک مرتبہ پھر نہ صرف بھارت کے تسلط کو مسترد کر دیا بلکہ دنیا پر ایک مرتبہ پھر واضح کر دیا ہے کہ وہ اپنی سر زمین پر بھارت کے جابرانہ قبضے کو کسی صورت تسلیم نہیں کریں گے۔

دوسری جانب پاکستان بھر میں گزشتہ کئی برسوں کی طرح کشمیری بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے متعدد اجتماعات ہو رہے ہیں، اس دن کی مناسبت سے جو بینرز اور بل بورڈز لگائے گئے ہیں وہ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ 1947 میں تقسیم ہند کا ایجنڈا تاحال تکمیل کا طلبگار ہے۔ لیکن آج کا دن ہم سے بھی غور و فکر کا تقاضا کرتا ہے، سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم سب کو یہ سوچنا چاہیے کہ ہم بھارت کے ظالمانہ تسلط کے شکار سری نگر سمیت مقبوضہ کشمیر کے عوام کی جو حمایت کرتے ہیں اس سے اب تک کیا حاصل ہوا ؟ یہ بات ہر شک و شبہے سے بالاتر ہے کہ پاکستان نے کشمیریوں کو بھارت کے قبضے سے آزاد کرانے کیلئے ہر ممکن کوشش کی لیکن افسوس ان پر امن کوششوں سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوسکا، درحقیقت پاکستان میں اور بیرون ملک کشمیری عوام کی آزادی کے حق میں کیے جانے والے احتجاجی مظاہروں یہاں تک کہ اقوام متحدہ میں دیگر اقوام کی جانب سے پاکستان کے موقف اور کشمیریوں کی تحریک آزادی کی جو پر زور حمایت کی گئی اس سے بھی کشمیر پر بھارت کا ناجائز تسلط ختم نہیں ہوسکا۔

اس صورتحال کے اسباب معلوم کرنا دشوار نہیں ہے ، کیونکہ اہم ممالک کے مفادات اپنے اپنے کارپوریٹ سیکٹرز سے جڑے ہوئے ہیں جنہوں نے بھارت میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہوئی ہے، اکثر مغربی طاقتیں بھارت کی تجارتی شریک ( ٹریڈنگ پارٹنر) ہیں اور اس کے ساتھ اسلحے، ٹیکنالوجی اور خدمات کے شعبے میں اشتراک عمل کرتی ہیں۔ ان تجارتی مفادات کی وجہ سے ہی ان مغربی طاقتوں کی جانب سے کشمیریوں کی حمایت میں اٹھنے والی آواز سچائی اور توانائی سے محروم ہے، دوسری جانب مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم و استبداد کی وجہ سے انسانی حقوق کی صورتحال بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے، باخر ذرائع کے مطابق اکثر اوقات مغربی سفارتکار نجی گفتگو میں یہ اعتراف کرتے ہیں کہ وہ ایسی کوئی بات اور ایسا کوئی کام نہیں کرنا چاہتے جس کے نتیجے میں بھارت کے ساتھ ان کے ملک کے تجارتی مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہو۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے جس کا ہم سب کو سامنا ہے ، اس وقت بین الاقوامی سطح پر اقتصادی مفادات سیاسی نظریات اور مفادات پر غالب آچکے ہیں، چین اس کی بہترین مثال ہے، بعض ممالک کے ساتھ چین کے سیاسی تعلقات خوشگوار نہیں ہیں، ان میں امریکہ، جرمنی کے علاوہ بھارت بھی شامل ہے ، اس کے باوجود چین ان ممالک کا بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس حقیقت نے پاکستان کے طاقتور حلقوں میں ایک نئی سوچ کو جنم دیا ہے، شاید یہ حلقے ہانگ کانگ اور مکاؤ کے بارے میں چین کے موقف پر توجہ دے رہے ہیں، یہ بات بعید از امکان نہیں کہ چین نے ان سے کہا ہو کہ ہم نے ہانگ کانگ اور مکاؤ کیلئے ایک صدی تک انتظار کیا، آپ بھی کشمیر کے معاملے میں اپنی حکمت عملی کو تبدیل کر کے اس مسئلے کے حل کیلئے انتظار کیوں نہیں کرتے ؟ بعض ذرائع کے مطابق چین کی اعلیٰ قیادت پاکستانی قائدین سے یہ بات کرچکی ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے صاحبان اختیار سے تبادلہ خیال کے بعد یہ سوچ پختہ ہو جاتی ہے کہ تنازع کشمیر کے بارے میں پاکستان کی حکمت عملی تاحال غیر مو ثر ہی ثابت ہوئی ہے، اس کی وجہ سے نہ صرف عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ متاثر ہوئی بلکہ اس کی اقتصادی ترقی کے عمل پر بھی منفی اثرات ہوئے، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بھارت نے نہایت عیاری کے ساتھ عالمی سطح پر یہ پراپیگنڈا کیا کہ پاکستان کشمیریوں کی حمایت کے پردے میں دراصل دہشت گردی کی مدد کررہا ہے۔

ذرائع کے مطابق پاکستان کے اہم ترین حلقوں میں ‘‘ عملیت پسندی’’ پر مبنی یہ سوچ پیدا ہو رہی ہے کہ کیوں نہ نئی حکمت عملی وضع کی جائے جس کا محور سکیورٹی نہیں بلکہ اقتصادی ترقی ہو، چینی قیادت نے بھی پاکستانی رہنمائوں کو مشورہ دیتے ہوئے یہی کہا ہے کہ سلامتی سے متعلق پاکستان کو جو استحکام حاصل ہے اس کے ساتھ اگر یہ اقتصادی ترقی پر توجہ دے تو اسے عالمی سطح پر بہتر مقام مل سکتا ہے، اگر پاکستان اقتصادی طور پر زیادہ مضبوط ہوجائے تو اس کی بدولت کئی اہم ممالک خود آگے بڑھ کر کوشش کریں گے کہ بھارت کے جابرانہ تسلط کے باعث کشمیری عوام جو عذاب جھیل رہے ہیں اس سے انہیں نجات مل جائے، اس کے بعد ہی بھارت کے ساتھ کشیدگی ختم ہوسکتی ہے، چین کی بھی یہی خواہش ہے ، اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی میں موجود پاکستان کے مقتدر حلقے گزشتہ کئی عشروں کے بعد اب چین کے اس مشورے پر کان دھرنے کیلئے تیار ہوگئے ہیں۔ اس ضمن میں یہ بات اہم نہیں ہے کہ بھارت میں رواں سال مئی کے عام انتخابات میں کون سی پارٹی کامیاب ہو کر حکومت بنائے گی، کیونکہ بھارت میں جو جماعت بھی برسر اقتدار آئے اسے اسلام آباد اور راولپنڈی کی ایک نئی سوچ کا سامنا ہوگا، اب پاکستان میں عمران خان اور جنرل باجوہ ہیں جو اقتصادی طور پر پاکستان کو خطے کی مضبوط طاقت بنانے کا عزم رکھتے ہیں، ان دونوں کو یقین ہے کہ پاکستان کو درپیش وسط مدتی اور طویل المدتی مسائل کے حل اور ترقی و کامیابی کو یقینی بنانے کا واحد راستہ یہی ہے، اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ توقع کی جائے کہ مئی میں بھارت کے عام انتخابات کے بعد کرہ ارض پر ایسا جنوبی ایشیا ابھرے گا جو کسی بھی علاقے کے عوام کے ساتھ بے رحمانہ برتاؤ اور ظلم و جبر سے پاک ہوگا۔