اسلام آباد: (دنیا نیوز) اپوزیشن کی تمام ترامیم مسترد، قومی اسمبلی میں فنانس ترمیمی بل 2019 کثرت رائے منظور کر لیا گیا۔
قومی اسمبلی میں ہنگامہ آرائی، جے یو آئی کے اسعد محمود کو مذمتی قرارداد پیش کرنے کی اجازت نہ دینے پر شور شرابہ ہونا شروع ہو گیا۔ اپوزیشن نے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں اور ایوان سے واک آؤٹ بھی کیا، پہلی بار سپیکر ڈائس کے سامنے نماز کی ادائیگی کی گئی۔ قومی اسمبلی اجلاس میں اپوزیشن کی تمام ترامیم مسترد کرتے ہوئے فنانس ترمیمی بل 2019 کثرت رائے منظور کر لیا گیا۔
فنانس ترمیمی بل وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے پیش کیا۔ اس موقع پر اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ احسن اقبال نے دھواں دھار تقریر کی اور کہا کہ ان کے دور حکومت میں معیشت میں اضافہ ہو رہا تھا۔ میرا مشورہ ہے کہ تنقید کرنے والے اپنی حکومتوں کے اعدادوشمار چیک کریں، پتا نہیں ان کو ایسے اعدادوشمار کون دے دیتا ہے۔
چیئرمین پیپلز پارٹی پر تنقید کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ آج تو بلاول بھٹو نے افراط زر کی بات کر کے کمال کر دیا، کاش انھیں اپنی حکومت میں افراط زر کی فکر ہوتی۔
انہوں نے کہا کہ شہباز شریف نے پوچھا قرضے کدھر جا رہے ہیں، میں انھیں بتانا چاہتا ہوں کہ سابق حکومت کے پرانے قرضوں کو اتارنے کے لیے قرض لے رہے ہیں۔ شہباز شریف صاحب آپ معیشت کو کھائی میں گرا کر گئے لیکن
خوشی ہوئی کہ انھیں بھی مہنگائی کی بھی فکر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پچھلے دس سالوں میں معیشت کا ڈھانچہ کمزور کیا گیا۔ ملک کو اس نہج پر لانے والوں سے سیکھنے کے لیے بھی تیار ہیں۔ اپوزیشن نے اہم معاملات اٹھائے ہیں۔ شہباز شریف چاہتے ہیں سب مل کر میثاق معیشت بنائیں، ہم اس پیشکش کا خیر مقدم کرتے ہیں۔
اسد عمر نے کہا کہ بدقمستی سے اپوزیشن کی تقریروں میں سیاسی پوائنٹ سکورننگ زیادہ کی جاتی ہے۔ ملکی معیشت پر تنقید کرنے والے سیاست دان اپنے ادوار پر نظر دوڑائیں۔ پیپلز پارٹی دور کے ابتدائی چھ ماہ میں افراط زر کی شرح 10 فیصد تھی۔ احسن اقبال کہتے ہیں انویسٹرکی لائنیں لگیں تھیں، ہماری حکومت میں (ن) لیگ کی حکومت سے زیادہ انویسٹمنٹ ہو رہی ہے۔