لاہور: (دنیا کامران خان کیساتھ) پاکستان کی سٹاک مارکیٹ میں ڈپریشن چھایا ہوا ہے، اس کا انڈیکس گر رہا ہے۔ پاکستان سٹاک ایکسچینج مارکیٹ میں 600 پوائنٹس کی گراوٹ ہوئی ہے جو 15 ماہ میں نچلی ترین سطح پر آگئی ہے اور لوگوں کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں، حتیٰ کہ سرکاری ادارے بھی شیئر مارکیٹ کی طرف رجوع نہیں کر رہے۔ اختتام ہفتہ وزیر خزانہ اسد عمر نے کئی پریس کانفرنسیں کیں، لیکن کاروباری ماحول اسد عمر کی ان باتوں سے مرعوب نہیں ہوا، اس تمام گفتگو کا کوئی فائدہ نہیں ہو رہا، لوگ ان کی باتوں کو تسلیم کرنے یا ان پر یقین کرنے کو تیار نہیں، اسی لئے آج پھر پاکستان سٹاک مارکیٹ کا انڈیکس 600 پوائنٹس کے قریب گرا ہے اور انڈیکس 25 ہزار 921 پوائنٹس کی سطح پر آچکا ہے۔
گزشتہ ہفتے بھی 1127 پوائنٹس کی کمی ہوئی تھی اور مارکیٹ 3 فیصد گر گئی تھی، آج ڈیڑھ فیصد گری ہے یعنی اپریل کے 8 دنوں میں ساڑھے چار فیصد گری ہے۔ پچھلے ہفتے بیرونی سرمایہ کاروں نے 65 کروڑ کے شیئر فروخت کر کے اپنا سرمایہ یہاں سے نکالنے میں عافیت سمجھی۔ ورلڈ بینک نے آج عملاً اپنی رپورٹ میں خطرے کی گھنٹی بجا دی اور بتایا کہ اس سال ترقی کی شرح 3.4 فیصد اور اگلے سال 2.7 فیصد رہنے کی توقع ہے، گویا آگے معیشت میں ترقی کی گنجائش کم سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ معاشی اصلاحات ہوئیں تو 2021 تک ترقی کی شرح 4 فیصد ہوسکتی ہے، لگتا ہے اسد عمر کی گفتگو نہ عوام سن رہے ہیں، نہ ہی پاکستان کے سرکاری ادارے، جبکہ سینکڑوں ارب کیش حکومتی اداروں کی مٹھی میں بند ہے، وہ وزیر خزانہ کی گفتگو کے باوجود سٹاک مارکیٹ سے بھاگ رہے ہیں، سرمایہ کاری کرنے کی بجائے سرمایہ نکال رہے ہیں۔ چاہے سٹیٹ لائف ہو یا اولڈ ایج بینیفٹ انسٹیٹیوشن، کوئی سٹاک مارکیٹ کے قریب نہیں جا رہا، یہ بڑی مشکل صورتحال ہے۔
اس حوالے سے ممتاز تجزیہ کار، ٹاپ لائن سکیورٹیز کے چیف ایگزیکٹو افسر محمد سہیل نے کہا کہ اس سال کا ریٹرن بھی منفی ہوگیا ہے۔ یہ تیسرا سال ہے اور ہم نے تاریخ میں ایسا ہوتے ہوئے بہت کم دیکھا ہے۔ گزشتہ 30 سال میں صرف ایک بار منفی ریٹرن تھا لیکن یہ مسلسل تین سالوں سے منفی ریٹرن ہے ، نہ صرف یہ بلکہ مارکیٹ کا اپنا سرمایہ دوسال میں آدھا یعنی 54 ارب ڈالر ہو گیا ہے اور اس کا حجم ایک تہائی رہ گیا ہے۔ اتنا شدید بحران اور خوف کی کیفیت اس سے پہلے نہیں دیکھی گئی۔ معیشت کے حالات شاید چھ ماہ میں کچھ بہتر ہوئے ہیں لیکن سرمایہ کاروں اور حکومت کا چھ ماہ میں اعتماد کا فقدان بڑھ گیا ہے، اس کی بے شمار وجوہات ہیں، ایک وجہ یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے بے شمار متضاد کمنٹس آتے رہے ہیں، کبھی ڈیفالٹ کا بتایا جاتا ہے ، کبھی کہا جاتا ہے اگلے دو سال معیشت میں نمو نہیں ہوگا، اس وجہ سے نہ صرف مقامی و غیر ملکی سرمایہ کار بلکہ وہ حکومتی ادارے جو وزیر خزانہ کے ماتحت کام کرتے ہیں وہ بھی اس وقت مارکیٹ میں نہیں آ رہے، یہ المیہ ہے کہ لوگوں کا اعتماد مجروح ہو رہا ہے۔
محمد سہیل نے کہا کہ ایمنسٹی سکیم کو کیپیٹل مارکیٹ بلکہ غیر دستاویزی پیسے کو دستاویزی صورت میں ہونا چاہیے، سکیم کا مقصد صرف ٹیکس اکٹھا کرنا نہیں ہونا چاہیے۔ ٹیکس فائلرز کو بڑھنا چاہیے اور سرمایہ کاری ہونی چاہیے، اس سکیم میں سٹاک مارکیٹ میں سر مایہ کاری کے لئے اقدامات تجویز ہونے چاہئیں، اگر اس قسم کی سکیم ہوگی تو سرمایہ کار سٹاک فروخت کرنا بند کر دیں گے اور غیر دستاویزی پیسہ بھی سٹاک مارکیٹ میں آسکتا ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت نے پاکستانی معیشت کو دستاویزی معیشت کا حصہ بنانے کے لئے ملک کی تاریخ کی نویں اور اپنی حکومت کی پہلی ایمنسٹی سکیم کے خدو خال کو حتمی شکل دے دی ہے جو اگلے ہفتے کابینہ کی منظوری کے لئے پیش کی جائے گی۔ ماہرین کہتے ہیں کہ حکومت کو اس سکیم کو کامیاب بنانے کے لئے غیر معمولی مراعات دینا ہوں گی اس کے بعد جی بھر کے ڈنڈا چلائیں کیونکہ ایمنسٹی سکیم لانا بہت آسان لیکن کامیاب کرانا بہت مشکل ہے۔ اس مالیاتی سکیم کا اعلان ایسے وقت میں کیا جا رہا ہے جب پچھلے ماہ حکومت بے نامی ایکٹ لاگو کر چکی ہے جس کے تحت ٹیکس حکام کو بے نامی اثاثے اور مہنگی گاڑیوں کو ضبط کرنے کا اختیار مل چکا ہے۔ وزیر خزانہ اسد عمر نے گزشتہ روز کہا کہ حکومت نے ایمنسٹی سکیم لانے کا فیصلہ کر لیا ہے لیکن خفیہ دولت ظاہر کرنے کا یہ آخری موقع ہوگا، اس کے بعد بھرپور کارروائی کی جائے گی۔ پاکستان کی معیشت کو دستاویزی بنانے کے لئے یہ "میک یا بریک" ایمنسٹی سکیم ہوسکتی ہے، مجوزہ سکیم میں منقولہ و غیر منقولہ اثاثے، نامی اور بے نامی بینکنگ اکاؤنٹس شامل ہیں۔ 2000 کے بعد سے پبلک آفس ہولڈرز یعنی ارکان قومی و صوبائی اسمبلی، سینیٹرز، کسی حکومت کے رکن یا وہ جوکسی سرکاری عہدے پر رہ چکے ہیں، اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے، یہ ان کے یا ان کے خاندان کے لئے ایمنسٹی سکیم نہیں ہوگی۔اس کے تحت اثاثے ظاہر کرنے والوں کے لئے ٹیکس فائل کرنا لازم ہوگا جو کہ اس سے پہلی سکیم میں نہیں تھا۔ نئی سکیم میں ڈالر ظاہر کرنے کے لئے ابتدائی طور پر 5 فیصد، ساڑھے 7 فیصد اور 10 فیصد کے سلیب تجویز کئے گئے ہیں تا ہم حتمی فیصلہ کابینہ کے اجلاس میں کیا جائے گا۔ بے نامی اکاؤنٹس پر 2 سے 10 فیصد اور اثاثوں پر 10 فیصد جرمانے کی تجویز ہے۔ ایف بی آر نے وزیر اعظم کو تجویز دی ہے کہ ایمنسٹی پر اعلیٰ عدلیہ اور سیاسی قیادت کو بھی اعتماد میں لیا جائے۔
اس حوالے سے پاکستان میں ٹیکس امور کے ماہر اور تجزیہ کار ڈاکٹر اکرام الحق نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ضروری ہے کہ لوگوں کو اس بات کا احساس ہوجائے کہ ریاست نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اس کے بعد ریاست ڈنڈے کا استعمال بھی کرے گی اور لوگوں کو سزائیں ہوسکیں گی، ان کے اثاثے ضبط ہوسکیں گے۔ اس وقت ہمیں باہر ایک لاکھ 52 ہزار اکاؤنٹ ہولڈرز کے بارے میں پتہ چلا ہے کہ ان کے 12 ارب ڈالر باہر پڑے ہیں۔ ابھی صرف 26 ممالک سے خبریں آئی ہیں اور اصل معلومات ابھی آنی ہیں، ان میں سوئس بینک بھی شامل ہیں لیکن ماضی میں بھی بڑی دلکش سکیمیں آئی ہیں لیکن ناکام رہیں۔ ایمنسٹی سکیم میں جرمانے کی جو شرح تجویز کی گئی ہے اگر نقد رقوم ہیں تو ان سے تو ادائیگی ہوسکتی ہے لیکن اس وقت پراپرٹی کی فروخت کا جو حال ہے اور ایک طرف نان فائلرز پر پراپرٹی خریدنے کی پابندی ہے۔ معاملات اتنے سادہ نہیں ہوتے۔ جن ملکوں میں ایمنسٹی سکیم کامیاب ہوئی ہے انہوں نے مقررہ وقت کے اندر ڈیکلیریشن لے لئے تھے اور بعد ازاں لوگوں کو قسطوں کی سہولت دی۔جنھوں نے پوری رقم یکمشت ادا کردی ان کو مزید رعایت دی، یہ فیصلے بہت سوچ سمجھ کر کرنا ہوتے ہیں۔ حکومت کہہ رہی ہے کہ اسے بے نامی اکاؤنٹس کا بھی پتہ ہے، باہر کے اکاؤنٹس کا بھی علم ہے، نادرا نے بھی بہت سا ڈیٹا اکٹھا کر لیا ہے اور یہ ڈیٹا ورلڈ بینک کے ساتھ بھی شیئر کیا جا چکا ہے، اگر واقع ہی اچھی تیاری ہے اور لوگوں کوایک موقع دیا جاتا ہے جیسا کہ چیمبر کے لوگوں نے کہا تھا تو اس کے بعد معاملہ سزاؤں کی طرف جائے گا۔ میرا خدشہ ہے کہ آج لیکوڈٹی کا بہت بڑا مسئلہ ہے ، اس بارے میں اس سکیم میں کوئی خدو خال نظر نہیں آئے، اسے کیسے حل کیا جائے گا۔