لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) وزیراعظم عمران خان کی جانب سے بھارتی انتخابات خطہ کے حالات اور پاک بھارت تعلقات بارے غیر ملکی خبر رساں ادارے کو دیئے جانے والے انٹرویو میں کہا گیا ہے کہ اگر بھارتی انتخابات میں نریندر مودی کامیاب ہوتے ہیں تو امن مذاکرات کی بحالی کا امکان ہے۔ کانگریس کی کامیابی کی صورت میں اس لئے پیش رفت ممکن نہیں کہ ان پر دائیں بازو کی جماعتوں کے رد عمل کا خوف ہوگا۔ البتہ انہوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان بنیادی ایشو کشمیر کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ نریندر مودی کیلئے میرا پیغام یہی ہے کہ مسئلہ کشمیر حل کرنا ہوگا اور یہ مسئلہ اب ابلتا نہیں رہ سکتا۔ کشمیر میں امن خطے کیلئے زبردست ہوگا۔ کشمیر میں جو ہو رہا ہے وہ وہاں کے کشمیری عوام کا رد عمل ہے ۔ اس میں پاکستان کا کوئی کردار نہیں۔
وزیراعظم عمران خان کے خیالات سے ایک بات واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ وہ بھارت سے اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں اور اس مقصد کیلئے وہ بنیادی تنازع کشمیر کے حل کے حوالے سے یکسو اور سنجیدہ ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس مسئلہ کے حل کے حوالے سے کسی بڑی پیش رفت کے بغیر نہ تو پاک بھارت تعلقات بہتر ہو سکتے ہیں اور نہ ہی خطہ میں دیر پا امن قائم کیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا ہمیں جائزہ لینا ہوگا کہ پاکستان کے مقابلہ میں بھارت کی سوچ کیا ہے۔ باہمی تنازعات کے حل کیلئے مل بیٹھ کر حل نکالنے کی بین الاقوامی طاقتوں کی تجویز کیونکر کارگر نہیں ہوتی۔ بھارت کی جانب سے کشمیر کے حوالے سے ضد اور ہٹ دھرمی کی کیفیت کیونکر ہے اور خود پاکستان کی جانب سے مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے کردار پر مطمئن ہوا جا سکتا ہے۔
ایک بات تو حالات و واقعات اور خود کشمیر کے اندر پیدا شدہ رجحانات سے واضح ہو کر سامنے آ گئی ہے کہ کشمیری کشمیر پر بھارتی تسلط برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں۔ اب جبکہ کشمیر خطہ میں نیوکلیئر فلیش پوائنٹ کے طور پر ابھرا ہے تو اب بین الاقوامی طاقتوں کو بھارت پر اپنا اثر و رسوخ بروئے کار لاتے ہوئے اسے مذاکرات کی میز پر بٹھانا ہوگا۔ بھارت کی کشمیر پر ضد اور ہٹ دھرمی اس لئے ہے کہ خود بھارت کے اندر بہت سی آزادی کی تحریکیں سر اٹھا رہی ہیں اور وہ اپنی اندرونی توڑ پھوڑ سے پریشان کشمیریوں کی آواز دبانے کیلئے سرگرم رہا مگر کشمیریوں کی جدوجہد نے ثابت کیا ہے کہ طاقت اور قوت کا بے بہا استعمال ان کے جذبہ پر غالب نہیں آ سکتا۔
اب کشمیر کے اندر آزادی کے مرحلہ میں اصل رکاوٹ صرف بندوق ہی ہے۔ بندوق کے ذریعے بھارت کی رٹ قائم ہے ورنہ بغاوت کی کیفیت کو خود بھارتی میڈیا اور خود فوج کے ساتھ ذمہ داران تسلیم کر رہے ہیں اور مسئلہ کے سیاسی حل پر زور دے رہے ہیں اور خود بھارتی دانشور بھی یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ کشمیریوں کی بھارت سے نفرت کے آگے بند نہیں باندھا جا سکتا۔ کشمیر کی اندرونی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو مقبوضہ وادی میں بھارت کے سب ہتھکنڈے ناکامی سے دو چار ہوئے ہیں۔ دنیا نے اس ایشو پر کچھ کروٹ لی ہے۔ انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں پر اقوام متحدہ امریکہ کے ہیومن رائٹس کے اداروں کی رپورٹس نے بھارت کا مکروہ چہرہ بے نقاب کر دیا ہے لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان اندرونی طور پر مستحکم ہو۔ یہاں اقتصادی حوالے سے مضبوطی آئے اور پاکستان آگے بڑھ کر کشمیریوں کی آزادی کیلئے کردار ادا کرے۔
وزیراعظم عمران خان کا مؤقف ظاہر کرتا ہے کہ کشمیر کاز پر یکسو سنجیدہ ہیں۔ مگر اس کیلئے کسی بڑی پیش رفت کیلئے اندرونی اتحاد اور معاشی استحکام لازم ہے۔ جس کی فکر کرنی چاہئے، بھارت کو بڑی چوٹ لگانے کیلئے ایک مضبوط، مستحکم اور خوشحال پاکستان ناگزیر ہے۔