لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) ملک معاشی گرداب میں مگر حکومتی ذمہ داران کیلئے اصل مسئلہ احتساب ہے، یہی وجہ ہے کہ وزراء عوام کو در پیش سلگتے مسائل خصوصاً بڑھتی مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کے رجحان پر پریشانی کا اظہار کرنے کے بجائے تکرار سے یہ کہتے نظر آتے ہیں یہ سب کچھ ماضی کی حکومتوں کا کیا دھرا ہے، ان سے پوچھا جاتا ہے تو پھر ان نا اہل کرپٹ اور ناکام حکمرانوں کے بعد مسائل زدہ عوام نے آپ پر اعتماد کیا تو انہیں اب کس چیز کی سزا مل رہی ہے تو کوئی کہتا ہے کہ انتظار کریں اور وزیر خزانہ اس حوالے سے دو سال کی بات کرتے نظر آتے ہیں۔
اقتدار کے ابتدائی 8 ماہ بعد ہی حکومت کی حالت زار ماضی کی حکومتوں کے دو سالہ اقتدار کے بعد والی نظر آنا شروع ہو چکی ہے، کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ حکمرانوں اور ان کے مخالفین کے درمیان ایک دوسرے کو چور، ڈاکو، نا اہل ناکام قرار دینے کی گردان نہ ہوتی ہو جس کے باعث اور کسی طبقہ میں ہو نہ ہو عام آدمی کے اندر مایوسی پھیلتی جا رہی ہے جو خود اہل سیاست کیلئے لمحہ فکریہ ہے، لوگ یہ کہتے نظر آنا شروع ہوئے ہیں کہ یہ کیسی جمہوریت ہے جو ہمارے لئے وبال جان بن چکی ہے۔ دو وقت کی روٹی ہمارے لئے اجیرن ہو گئی۔ بجلی جلائیں یا چولہا مہنگائی کے باعث ہمارے دل جل رہے ہیں، لہٰذا سوال یہ پیدا ہو رہا ہے کہ حالات کا رخ یہی رہے گا، مسائل زدہ عوام کیلئے ریلیف نا پید ہو گیا۔ ملک کا اصل مسئلہ معیشت ہے یا احتساب۔ میثاق جمہوریت ہو سکتا ہے تو میثاق معیشت کیوں نہیں ؟ اگر ان دونوں کو میثاق احتساب میں منسلک کر لیا جائے تو ملکی حالات، معاملات بہتری سے چل سکتے ہیں اور احتساب کا عمل بھی جانبداری سے پاک ہو سکتا ہے۔
پاکستان میں اگر واقعتاً احتسابی عمل موثر ہوتا تو ہماری سیاست اور معیشت بدعنوانی، کرپشن اور لوٹ مار سے پاک ہوتی۔ بد قسمتی سے سیاسی مفادات پر مبنی احتسابی عمل چوروں، ڈاکوؤں اور قومی خزانہ لوٹنے والوں کو انکے انجام پر پہنچانے کے بجائے انہیں ہیرو بنایا جا رہا ہے اور حکمران جنہیں عوام نے اپنے لئے ریلیف، ملک میں گورننس، نوجوانوں کیلئے روزگار اور انصاف کی فراہمی اور دو نہیں ایک پاکستان کیلئے مینڈیٹ دیا تھا وہ خود کو صرف اور صرف احتساب کیلئے وقف کر چکے ہیں اور حکومت کی آٹھ ماہ کی کارکردگی جس طرح تیزی سے سوالیہ نشان بنتی جا رہی ہے اس پر انہیں کوئی فکر مندی نہیں۔ حکومتی کارکردگی اور سیاسی اتار چڑھائوپر گہری نظر رکھنے والوں کی جانب سے متعدد بار یہ کہا جاتا رہا ہے کہ حکومت خود کو احتساب کے عمل سے الگ کرے اور یہ کام قانون اورعدلیہ پر چھوڑ دیا جائے ۔ لیکن حکومت ہے کہ اصل ایشوز سے ہٹ کر خود کو احتساب تک محدود کرتی جا رہی ہے۔ اور اپنا اصل کام کرنے کے بجائے قوم کو یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ ہمیں مخالفین کو جیلوں میں بھجوانا ہے اور خود حکومتی پالیسی اور ذمہ داران کا طرز عمل اس کا گواہ ہے، پنجاب کی سطح پر شہباز شریف خاندان کو ٹارگٹ کرنے کا عمل اور اس پر حکومت کے واضح بیانات کے بعد یہ سمجھا جا رہا ہے کہ انہیں ملنے والے مشورے مسلسل نظر انداز ہونے کے بعد کسی نے کچھ سبق سکھانے کیلئے حکومت کو بھی تنہا چھوڑ دیا ہے۔
مسلم لیگ ن کی سیاست پر تحفظات کا اظہار کرنے والے چودھری نثار علی خان نے اپنے بچپن کے دوست عمران خان کو مخلصانہ مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ غصہ تھوک دیں اور حکومت کو احتساب کے عمل سے الگ کر لیں مشورہ تو قبول نہیں ہوا البتہ ان کے مد مقابل وفاقی وزیر غلام سرور خان نے اس کے جواب میں خاصی ذاتیات کا مظاہرہ کرتے ہوئے درگت بنانے کی کوشش کی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی بھی عقل کی بات سننے کیلئے تیار نہیں جہاں تک زمینی حقائق کا تعلق ہے تو اس حوالے سے دو آراء نہیں کہ حکومت کی اب تک کی کارکردگی اور خصوصاً مہنگائی کے طوفان نے عوام کے اوسان خطا کر رکھے ہیں لیکن پریشان حال عوام کی آواز سننے کیلئے کوئی تیار نہیں۔ بڑی جماعتیں بڑی تحریک کے موڈ میں نہیں مولانا فضل الرحمن اپوزیشن کی صف بندی کیلئے سرگرم ہیں نواز شریف اور آصف زرداری سے ملاقاتیں ہو چکی ہیں لیکن لگتا یوں ہے کہ انہیں مطلوبہ جواب ابھی نہیں ملا۔ کیونکہ بڑی جماعتیں یہ سمجھتی ہیں کہ حکومتی مقبولیت کا گراف جتنی تیزی سے گر رہا ہے کسی احتجاج یا تحریک کی صورت میں سیاسی محاذ پر تقسیم ہوگی اور تحریک انصاف کو یہ کہنے کا موقع ملے گا کہ ہمیں کام نہیں کرنے دیا گیا ہماری ٹانگیں کھینچی گئیں۔ ان کے خیال میں ہمارے کسی احتجاج کی صورت میں حکومت کیلئے سنبھلنے کا موقع ہوگا۔ لگتا یہ ہے کہ بڑی جماعتیں اس حکمت عملی پر گامزن ہیں کہ حکومت پر دباؤ بڑھایا جائے اور خود کو دباؤ سے نکالا جائے اور جو کچھ بھی کرنا ہے اس کیلئے بجٹ تک کا انتظار کیا جائے۔
جہاں تک اس امر کا سوال ہے کہ بیورو کریسی حکومت سے تعاون نہیں کر رہی تو حقیقت یہ ہے کہ کچھ بیورو کریٹس کی گرفتاریوں اور نیب میں ان کی پیشیوں کے بعد وہ گوسلو کی پالیسی اختیار کئے ہوئے ہیں اول تو فائل پکڑنے کیلئے تیار نہیں پکڑ لیتے ہیں تو آگے چلنے کے بجائے اسکا رخ پیچھے موڑ دیتے ہیں۔ لہٰذا محاذ حکومتی ہو، سیاسی یا انتظامی محسوس یہی کیا جا رہا ہے کہ حکومت گیلی مٹی پر کھڑی ہے۔ کیونکر کھڑی ہے کس کی وجہ سے کھڑی ہے جب تک اس صورتحال کا گہرائی سے جائزہ نہیں لیا جائے گا معاملات اور حالات بہتر نہیں ہوں گے۔ تحریک انصاف کا سنجیدہ طبقہ آخر کیونکر خاموشی اختیار کرتا جا رہا ہے۔ پارٹی پر غالب وہی آ رہے ہیں جو مخالفین کو ٹارگٹ کرتے انہیں چور ڈاکو قرار دیتے نظر آتے ہیں لیکن اس بات کیلئے خود کو جوابدہ نہیں بنا رہے کہ اب وہ حکمران ہیں اور حکمران کی حیثیت سے جوابدہ بھی وہی ہیں، جب تک ذمہ داری کا احساس حکومت کے اندر پیدا نہیں ہوگا اور انہیں عوام الناس پر گزرنے والی حالت کا ادراک نہیں ہوگا حکومتی گاڑی آگے نہیں چل سکے گی۔ اس حکومت سے اور خود وزیراعظم عمران خان سے عوام الناس کو بہت سی امیدیں اور توقعات تھیں اور ہیں لیکن اس کیلئے بیانات نہیں اقدامات درکار ہیں۔ عوام کو ریلیف ملے اور ان کی زندگیوں میں اطمینان ہو تو کوئی حکومت پریشان نہ ہو۔ ایسی حکومت کو اپوزیشن چیلنج نہیں کر سکتی معاشی چیلنج ہی اصل چیلنج ہے، احتساب حکومتی ذمہ داری نہیں یہ نیب اور عدلیہ کے کرنے کا کام ہے۔ حکومت نے اپنے مینڈیٹ سے انحراف برتا اور اپنی اصل ذمہ داری پوری نہ کر پائی تو ملک کے اندر تیسری پارٹی کا تجربہ کارگر نہیں ہو پائے گا اور خود وزیراعظم عمران خان سے ہونے والی مایوسی بڑی مایوسی سمجھی جائے گی۔