لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) وفاقی کابینہ میں رد و بدل کے بعد وزیراعظم عمران خان نے اور کزئی کے جلسہ عام میں مزید تبدیلیوں کا واضح اشارہ دیتے ہوئے کہا کپتان کا مقصد ٹیم کو جتوانا ہوتا ہے اور وزیراعظم کے طور پر مجھے قوم کو جتانا ہے۔ اس لئے جو وزیر ملک کیلئے فائدہ مند نہیں ہوگا اسے تبدیل کر دیا جائے گا۔
انہوں نے پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار اور پختونخوا کے وزیراعلیٰ کو بھی اپنی ٹیم کی کارکردگی پر نظر رکھنے کی ہدایت کی جس کے بعد یہ سمجھا جا رہا ہے کہ وفاق میں ہونے والی تبدیلی کا عمل پنجاب اور پختونخوا تک وسیع تر ہو سکتا ہے اور اس حوالے سے پختونخوا خصوصاً پنجاب کی سطح پر گھنٹیاں بجنا شروع ہو گئی ہیں، لہٰذا اصل سوال یہ ہوگا کہ بجٹ سے پہلے تبدیلیوں کا یہ عمل حکومت اور حکمران جماعت کو مضبوط کرے گا ؟ وفاقی سطح پر غیر منتخب افراد کو اکاموڈیٹ کرنے کا خود جماعت کے اندر کیا پیغام گیا ہے اور یہ کہ تحریک انصاف کی حکومت وزارت خزانہ میں تبدیلی کے بعد معاشی بحران پر قابو پا سکے گی ؟ جہاں تک حکومت میں تبدیلی کے عمل کا سوال ہے تو یہ وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کا استحقاق ہوتا ہے کہ وہ کارکردگی کی مانیٹرنگ کے بعد خاموشی سے تبدیلیاں کر دیں مگر پہلی دفعہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ تبدیلی سرکار ہر سطح پر نیا رجحان متعارف کرانے پر تلی ہوئی ہے اور اس کے اثرات یہ ہیں کہ حکومتی ذمہ داروں، و زرائے اعلیٰ اور وزیروں پر تلوار لٹکتی نظر آ رہی ہے اور کوئی بھی خود اعتمادی کے اظہار کے طور پر پرفارم کرتا نظر نہیں آ رہا۔
جس تبدیلی کے کروڑوں عوام منتظر تھے وہ تو ابھی نظر نہیں آ رہی البتہ وزیراعظم کی اپنی ٹیم میں کئی روایتی چہرے شامل کر کے جس تبدیلی کا تاثر دیا گیا ہے اس کا جواب آنے والے چند دنوں پر چھوڑا جا سکتا ہے ، البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ تبدیلی کے اس نئے عمل میں منتخب افراد کی جگہ ڈیڑھ درجن سے زائد غیر منتخب افراد کی تعیناتی اور نامزدگی کے عمل کے اثرات خود حکمران جماعت کیلئے اچھے نہیں ہوں گے اور حکومت کی اب تک کی عدم کارکردگی پر اپنی قیادت اور حکومت کا دفاع کرنے والے ارکان اسمبلی آنے والے وقت میں ایسا کر پائیں گے یہ دیکھنا پڑے گا۔ ویسے بھی سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ بجٹ پیش کرنے سے پہلے منتخب حکومتیں اپنی پارلیمانی پارٹی کو اعتماد میں لینے اور اراکین اسمبلی کی خوشی کیلئے بہت کچھ کرتی نظر آتی ہیں تا کہ بجٹ پیش کرنے میں انہیں مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
لہٰذا آج کی صورتحال میں جب مرکز اور پنجاب میں حکمران جماعت کی اکثریت محض چند اراکین کی اکثریت تک محدود ہے۔ تبدیلیوں کا یہ عمل ان کیلئے بہت سارے سیاسی خطرات اور خدشات کا باعث بن سکتا ہے۔ کیونکہ زمینی حقائق پر نظر دوڑائی جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ تمام تر حکومتی دعوؤں کے برعکس فی الحال عوامی سطح پر ریلیف کہیں نظر نہیں آ رہا، اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں آگ لگی نظر آ رہی ہے، حکومتی رٹ اس حوالے سے کتنی ہے یہ رمضان المبارک کے دوران پتہ چل جائے گا اور اس کے بعد بجٹ کے حوالے سے بھی کسی خیر کی خبر نہیں لہٰذا ضرورت اس امر کی تھی کہ وزیراعظم عمران خان پہلی ترجیح کے طور پر اپنی حکومت کے استحکام کیلئے عوام کی زندگیوں میں اطمینان کی فکر کرتے اور معاشی بحالی اور ترقی کے عمل کو آگے بڑھاتے، لیکن عملاً یہ نظر آ رہا ہے کہ ان کی ترجیح بے رحم احتساب ہے اور وہ اپنے مخالفین کو جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے پہنچانا چاہتے ہیں۔
سیاسی اور جمہوری عمل میں ٹائمنگ کی اہمیت ہوتی ہے، وقت پر کیا جانے والا کام ہی کارگر ہوتا ہے اگر بار بار وزرا اور وزرائے اعلیٰ پر تبدیلی کو غالب رکھنے کی کوشش کی جائے گی تو وہ ڈلیور کرنے کے بجائے اپنا دفاع اور بقا کی جنگ لڑتے نظر آئیں گے۔ اس سے حکومتی کارکردگی میں اضافہ نہیں ہوگا بلکہ اپنی سیاسی بقا اولین ترجیح بنے گی۔ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے تبدیلیوں کے نئے عمل سے پتہ چلتا ہے ان کی حکومت معاشی مسائل کے باعث اکھڑی ہے لہٰذا علاج اس کا ہونا چاہئے نہ کہ وزرا کو مورد الزام ٹھہرا کر رخصت کر نا چاہئے اور نہ ہیں ان کی جگہ ایسے افراد لائے جائیں جن کے خلاف خود عمران خان اپنی سیاسی جدوجہد کرتے رہے ہیں۔
موجودہ حکمران جماعت اور قیادت پاکستان کو اس نہج پر پہنچانے کی ذمہ دار ماضی کی حکومتوں اور دو پارٹیوں کو قرار دیتی رہی لیکن ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ جنہیں کرپٹ، بددیانت اور خائن قرار دیا جاتا رہا ان کی حکومتوں کے قیام کے سالوں بعد تو ایسی صورتحال پیدا ہوئی ہوگی جیسی اس حکومت کے 8 ماہ بعد پیدا ہو چکی ہے۔ لہٰذا سسٹم کو مورد الزام ٹھہرانے اور تبدیلی کے عمل سے ڈرانے کے بجائے ضرورت اس امر کی ہے کہ منتخب حکومت فیصلے سوچ سمجھ کر اور سیاسی کرے کیونکہ اس حکومت کی کامیابی کا کریڈٹ اور ناکامی کی ذمہ داری بہر حال وزیراعظم عمران خان پر آتی ہے۔ ذمہ دار وہ قرار نہیں پائیں گے جو ادھر اُدھر سے جمع کر کے ان کے ساتھ بٹھا دئیے گئے اور یہ وہی ہیں جب کشتی ڈگمگانے لگتی ہے تو یہ چھلانگیں مارتے نئی پناہ گاہوں کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔