افغان امن مشن کا مخالف کون ؟

Last Updated On 30 April,2019 08:34 am

لاہور: (امتیاز گل) 29 اپریل افغانستان کے نوخیز امن عمل سے جڑے ہوئے تنازعات میں اضافے کے حوالے سے ایک اور اہم تاریخ ہے۔ افغانستان کے حوالے سے امریکہ کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد گزشتہ برس قطر کے دارالحکومت دوحہ میں شروع ہونے والے افغان امن عمل کے حوالے سے پاکستانی رہنماؤں سے ملاقات کر رہے ہیں۔

دوسری طرف کابل میں صدر اشرف غنی کا طلب کردہ چار روزہ لویا جرگہ بھی متنازع حالات میں شروع ہوا ہے۔ افغان صدر کے بلائے ہوئے لویا جرگے اور زلمے خلیل زاد کے مذاکرات کا بیان کردہ مقصد افغانستان میں امن کا قیام ہے۔ تنازع بہر کیف جاری ہے۔ ذاتی پسند و ناپسند کا کھیل جاری ہے۔ کبھی کبھی طرز عمل بھی عجیب دکھائی دیتا ہے۔ یہ عمل دلدلی پانیوں کی طرف جاتا دکھائی دیتا ہے اور اس کے نتیجے میں حتمی مقصد آنکھوں سے اوجھل لگتا ہے۔ زلمے خلیل نے امن مشن خاصے پر شکوہ انداز سے شروع کیا تھا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہیں طالبان کے مقابل اپنی حدود کا اندازہ ہوا۔ اور پھر انہوں نے طالبان کے طرز فکر و عمل میں لچک دکھائی نہ دینے کیلئے پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ ان کی ٹویٹس اور بیانات دونوں سے پاکستان کیلئے نفرت نہ سہی، شدید ناپسند کا اندازہ ضرور ہوتا ہے۔ کیا زلمے خلیل زاد کا رویہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس عزم کے منافی نہیں کہ سال رواں کے آخر تک افغانستان سے مکمل طور پر الگ ہو جانا ہے ؟ کبھی کبھی وہ پاکستان اور اس کے اتحادیوں چین اور روس کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا کر کے، کسی نہ کسی معاملے کو ہوا دے کر یا پھر براہ راست الزام لگا کر ڈبل گیم کھیلتے دکھائی دیتے ہیں۔ روس نے زلمے خلیل زاد کی جانب سے ماسکو امن عمل کو دوحہ مشن کا حصہ قرار دینے کی کوشش کا خاص طور پر برا مانا ہے۔ @US4AfghanPeace پر درج ذیل ٹویٹ پڑھیے۔

‘‘گزشتہ روز افغانستان سے متعلق عمران خان کے بیان کا خیر مقدم ہے۔ ان کی طرف سے تشدد کا گراف نیچے لانے اور دیگر اقوام کے اندرونی تنازعات کو فروغ دینے کی پالیسی ترک کرنے سے متعلق بیان اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ خطے میں مثبت تبدیلیاں لاکر پاکستان کیلئے قائدانہ کردار چاہتے ہیں۔ دوسرے جملے کا تھوڑا بہت جائزہ لیا جانا چاہیے۔ کیا پاکستانی وزیر اعظم یہ کہہ رہے ہیں کہ اب افغانستان میں تنازعات کو ہوا نہیں دی جائے گی ؟ موقع ملنے پر پاکستان کو ناراض کرنے کے شوق کے علاوہ زلمے خلیل زاد نے طالبان کو بھی ناراض کیا ہے۔ طالبان کا زور اس بات پر ہے کہ امریکی ایلچی سے ان کی بات چیت میں امریکی فوج کے انخلاء کے ساتھ اس نکتے پر مرکوز رہنی چاہیے کہ افغان سر زمین کو بیرونی دہشت گردی کیلئے استعمال ہونے سے روکنے کا میکنزم تیار کیا جانا چاہیے۔ ایک اور ٹویٹ میں زلمے خلیل زاد نے طالبان کو مزید ناراض کیا۔ اتوار کو زلمے خلیل زاد نے ’’تولو نیوز ٹی وی‘‘ کو بتایا کہ ہم محض انخلاء نہیں بلکہ امن اور سیاسی تصفیہ بھی چاہتے ہیں۔ ایک اور ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ طالبان کہتے ہیں کہ سیز فائر ایجنڈے کا حصہ نہیں جبکہ ہمارا یہ کہنا ہے کہ امن ہی ایجنڈے کا بنیادی حصہ ہے۔ افغان عوام بہت تشدد جھیل چکے ہیں اور اب وہ جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔

اس تمام صورتحال پر نظر رکھنے والے یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ اس نوعیت کی ’’دریدہ دہنی‘‘ کے باوجود کیا زلمے خلیل زاد پاکستان، ایران، روس اور چین کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ کیا ایک بار پھر وہ اس بات کی تیاری کر رہے ہیں کہ امن مشن میں ناکامی پر پاکستان کو مورد الزام ٹھہرائیں ؟ کابل میں لویہ جرگے کے حوالے سے صرف یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایسے اجتماعات روایتی طور پر ملک بھر سے عمائدین کی مدد سے سب کی شمولیت اور اتفاق رائے کی علامت ہوتے ہیں۔ نمایاں سٹیک ہولڈرز سے متعلق اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ صدر اشرف غنی کے طلب کردہ لویہ جرگے نے صدیوں پرانے اصول کو متاثر کیا ہے کیونکہ 17 بڑے صدارتی امیدواروں نے شرکت سے انکار کیا ہے ۔ یہ تمام اپنے اپنے علاقوں میں سیاسی اعتبار سے غیر معمولی اثر و رسوخ کے مالک ہیں۔ ان کے شریک نہ ہونے سے لویہ جرگہ ایک ناکام اجتماع میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ لویہ جرگے کے کئی مقاصد ہوسکتے ہیں مثلاً (الف) زلمے خلیل زاد اور طالبان کے درمیان کسی ڈیل کے حوالے سے حکومتی سطح پر سرخ لکیر کھینچنا (ب) آئین کے تسلسل کو یقینی بنانا اور (ج) خواتین اور میڈیا کے حقوق کے ساتھ اظہار رائے کی آزادی یقینی بنائے رکھنے کے حوالے سے اتفاق رائے پیدا کرنا ہے۔

یہ چار روزہ لویہ جرگہ بظاہر صدر اشرف غنی کی طرف سے اس امر کی ’’بے حواسانہ‘‘ کوشش لگتا ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان جاری مذاکرات پر کسی نہ کسی حد تک اثر انداز ہوا جائے اور کابل کی قومی اتحاد کی حکومت کو ان مذاکرات کے حوالے سے ’’متعلق‘‘ بنایا جائے، وقعت کا اہتمام کیا جائے۔ کابل انتظامیہ کے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے یہ کہتے ہوئے لویہ جرگے میں شرکت سے معذوری ظاہر کی ہے کہ افغانستان کے موجودہ مسائل کے حوالے سے یہ لویہ جرگہ زیادہ معاون دکھائی نہیں دیتا۔ سابق صدر حامد کرزئی نے بھی یہ کہتے ہوئے اس جرگے میں شرکت سے معذرت کرلی کہ سیاسی کمیونٹی، عمائدین، علمائے کرام، سیاسی کارکنوں اور سول سوسائٹی کی اکثریت نے لویہ جرگے کے مقاصد اور ٹائم لائن کے حوالے سے شبہات کا اظہار کیا ہے۔ احمد ولی مسعود، رحمت اللہ نبی اور سابق مشیر قومی سلامتی محمد حنیف اتمار بھی جرگے کا بائیکاٹ کرنے والوں میں شامل ہیں۔ ان میں سے کئی نے لویہ جرگے کو انتخابی مہم اور وقت کا ضیاع قرار دیا ہے۔ افغان امن عمل سے کئی پیچیدہ اور الجھے ہوئے سوال بھی جڑے ہوئے ہیں۔ یہ عمل اب کابل میں بیرونی اثرات کے حامل چند لوگوں اور زلمے خلیل زاد کے خیالات کے ہاتھوں یرغمال دکھائی دیتا ہے۔ اب چاہے اس کے نتیجے میں علاقائی سٹیک ہولڈرز ہی کو نقصان پہنچے۔ ’’تولو نیوز ٹی وی ‘‘سے زلمے خلیل زاد کے تازہ ترین انٹرویو سے اس امر کا بھرپور اشارہ ملتا ہے کہ وہ پورے امن عمل کو الجھا دینا چاہتے ہیں۔ زلمے خلیل زاد نے اس انٹرویو میں کہا کہ طالبان امریکی فوجیوں کے مکمل انخلاء کی ٹائم لائن چاہتے ہیں جبکہ ہمارا یہ کہنا ہے کہ ہم چند شرائط کے تحت ہی انخلاء کریں گے۔ کیا اس دورخے پن کے ساتھ زلمے خلیل زاد طالبان سے کوئی ڈیل کرسکیں گے اور کیا انہیں بیرونی سٹیک ہولڈرز کی حمایت حاصل ہوسکے گی ؟۔
 

Advertisement