لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) سابق وزیراعظم نواز شریف اپنی صحت کے پیش نظر سپریم کورٹ کی جانب سے دی جانے والی 6 ہفتے کی عارضی ضمانت کی تکمیل کے بعد واپس کوٹ لکھپت جیل پہنچ گئے۔ نواز شریف کی جیل واپسی کے عمل میں ان سے یکجہتی کے اظہار کے طور پر ان کی بیٹی مریم نواز، بھتیجے حمزہ شہباز کے علاوہ بڑی تعداد میں پارٹی کے لیڈرز، اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اور کارکن ان کے ہمراہ تھے جو اپنی لیڈر شپ سے وابستگی کے اظہار کے طور پر ان کی تصویر لہراتے اور نعرے بازی کرتے نظر آئے۔
جیل واپسی کے اس عمل میں لیگی قائدین اور کارکنوں کی جانب سے یکجہتی کے اظہار کے مقاصد کیا تھے ؟ کیا مسلم لیگ ن ملکی حالات میں ایک سرگرم کردار کی ادائیگی کا فیصلہ کر چکی ہے ؟ احتجاجی سیاست کے اثرات کیا ہوں گے ؟ حکومت اپوزیشن کے دباؤ میں آئے گی ؟ سابق وزیراعظم نواز شریف کو ملنے والی عارضی ضمانت کے بعد جیل تو واپس جانا ہی تھا لیکن ان کی جاتی امرا موجودگی کا سیاسی لحاظ سے اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ پارٹی کی تنظیم نو کے بعد جماعت میں دم خم نظر آنے لگا ہے اور اس کی بڑی وجہ پنجاب کی لیڈر شپ رانا ثناء اﷲ خان کو ملنا ہے، انہیں پنجاب کی صدارت سونپنے کا مقصد ہی حکمت عملی کی تبدیلی تھی کہ اب ‘‘ دیکھو اور انتظار کرو’’ کی پالیسی سے باہر نکل کر پارٹی کو نئی صورتحال میں خصوصاً حکومت کی ناقص کارکردگی اور خصوصاً بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری، غربت، بے چینی، مایوسی اور بے یقینی میں اپنا سیاسی کردار ادا کرنا ہے۔
پہلے مرحلہ کے طور پر رانا ثناء اﷲ کی صدارت میں فیصلہ ہوا کہ اپنے لیڈر کی عارضی ضمانت کی تکمیل پر انہیں واپس جیل جانے کے عمل میں پارٹی لیڈر شپ اور کارکن ان کے ساتھ جائیں گے، گو کہ جتنی تیاری تھی عملاً اتنا بڑا عوامی شو تو نہ ہو سکا البتہ اسے ایک اچھی سیاسی ابتدا ضرور کہا جا سکتا ہے کیونکہ مسلم لیگ ن کی جانب سے اختیار کی جانے والی پر اسرار خاموشی کا جہاں انہیں نقصان ہوا وہاں عام تاثر یہ بن رہا تھا کہ شاید اپوزیشن کا کردار اب پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو ادا کریں گے اور غالباً اسی تاثر کی بنیاد پر مسلم لیگ ن کی نئی لیڈر شپ نے کروٹ لی ہے اور تنظیم نو کے بعد ان کے بیانات اور جذبات و احساسات میں سختی آ رہی ہے جس سے ظاہر ہو رہا ہے کہ حالات خواہ کچھ بھی ہوں اپنا سیاسی کردار ادا کرنا ہے اور یہی وجہ ہے کہ تنظیم نو میں انہیں جگہ ملی ہے جو خود نواز شریف کے بیانیہ کے ساتھ کھڑے نظر آئے اور مصلحت پسندی کا شکار نہیں ہوئے البتہ اب یہ ضرور دیکھنا پڑے گا کہ آنے والے وقت میں مسلم لیگ ن سختیاں برداشت کرنے کو تیار ہے ؟۔
کیونکہ حکومت کی اب تک کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ حکومت کے حوالے سے ایک مایوسی کی کیفیت ہے اور ان کے پاس عوام کو دینے کے لئے سوائے تقاریر اور نعروں کے ساتھ کچھ نہیں، وزیراعظم عمران خان فی الحال عوام کی ڈھارس بندھاتے اور اچھے دنوں کی خبر دیتے نظر آتے ہیں مگر زمینی حقائق یہی ہیں کہ عوام مایوسی سے دو چار ہیں اور پریشان کن امر یہ ہے کہ اپوزیشن بھی اس مشکل صورتحال میں عوام کی آواز بننے کے بجائے صرف بیانات پر اکتفا کئے ہوئے ہے۔ البتہ مریم نواز کے حوالے سے ضرور کہا جا سکتا ہے کہ آنے والے حالات میں وہ خود اپنے باپ کیلئے پیدا شدہ مشکلات، صعوبتوں کے ساتھ عوام کو آواز بننے کی صلاحیت رکھتی ہیں لیکن جن قوتوں نے نواز شریف کو ٹارگٹ کر رکھا ہے وہ مریم نواز کو کسی بڑے سیاسی کردار کی اجازت نہیں دیں گی، جیل واپسی کے عمل کے دوران نواز شریف جس گاڑی پر سوار تھے اس کی ڈرائیونگ حمزہ شہباز کر رہے تھے اور ان کے ساتھ مریم نواز بیٹھی تھیں جبکہ خود نواز شریف پچھلی نشست پر سوار تھے۔ انہوں نے خود مریم نواز کو آگے بیٹھنے کو کہا، ان کی جانب سے اس امر کا اظہار بھی کسی بڑے سیاسی اشارہ سے کم نہیں۔ اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ آنے والے وقت میں مریم نواز کا کردار اہم ہے۔
اب مسلم لیگ ن نے ایک مرتبہ پھر اپنی گاڑی مشکل شاہراہ پر ڈال دی ہے اور دیکھنا یہ پڑے گا کہ یہ گاڑی کس رفتار سے آگے کی جانب چلتی ہے۔ واقعات حال تو یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ نواز شریف کی جیل واپسی اور شہباز شریف کی لندن یاترا کے باوجود احتجاجی سیاست کا آغاز ہونے والا ہے اور اس مقصد کیلئے تیاریوں کا عمل رمضان المبارک میں شروع ہوگا اور عید الفطر کے بعد عوامی محاذ پر مسلم لیگ ن اپوزیشن کے ساتھ ملکر نئی کروٹ لیتی نظر آئے گی۔