لاہور: (امتیاز گل ) چینی قیادت گوادر کو اتنی ہی تیزی سے ترقی سے ہم کنار کرنا چاہتی ہے جتنی تیزی کی حالات اجازت دیں۔ چینی قیادت کے لئے بنیادی اور کلیدی مقصد یہ ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے ذریعے پاکستان سے دوستی اور پارٹنر شپ کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کیا جائے اور سی پیک کی سب سے توانا علامت گوادر ہے۔ بیجنگ کا پیغام یہ ہے کہ ہم یہاں طویل المیعاد دوستی کے لئے ہیں، محض تجارتی مفادات سب کچھ نہیں۔
حکومت کو ابتدائی مرحلے میں 2 ارب ڈالر کا نرم قرضہ اس بات کا مظہر ہے کہ چین کے لئے پاکستان خصوصی دوست ہے۔ مگر، اور یہ ایک بڑا مگر ہے، تذویراتی نقطۂ نظر سے تیزی سے بدلتے ہوئے ماحول میں چین کو پاکستان سے تیز اور مکمل ہم آہنگ اقدامات کی توقع ہے۔ اگر سی پیک مخالف بیورو کریٹس اور سیاست دان سی پیک کو از کار رفتہ پلاننگ کمیشن والے نظام کے تحت برتتے رہے اور نفاذ کی راہ میں دیوار بنتے رہے تو ہم کس طور آگے جاسکتے ہیں ؟ یہ خدشہ وزیر اعظم کے اپریل کے ہائی پروفائل دورۂ چین کے باوجود برقرار ہے۔ چینی صدر شی جن پنگ کے لئے آنکھ اور کان کا درجہ رکھنے والے حلقوں میں بھی یہ خدشہ پایا جاتا ہے۔ ایک اور قابل غور امر گوادر شہر اور اس کے انڈسٹریل زون کے لئے 300 میگاواٹ کا مجوزہ بجلی گھر بھی ہے۔
صوبائی حکومت یا دیگر متعلقہ قوتوں کی طرف سے دانستہ تاخیر اور اجتناب کے بعد اس پراجیکٹ سے جڑی کمپنی پاور چائنہ نے بالآخر مارکیٹ سے دگنے نرخ پر زمین لیز کرالی ہے۔ اسلام آباد میں نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ پاور چائنہ کا کہنا ہے کہ کم گنجائش (300 میگا واٹ) اور مشکل آپریشنل حالات کے پیش نظر نیپرا کے طے کردہ نرخ مضحکہ خیز حد تک کم ہیں مگر نیپرا نے اب تک نرخوں پر نظر ثانی نہیں کی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس وقت نجی بجلی گھروں کے لئے نرخ 10 سینٹ فی یونٹ کے آس پاس ہیں۔ پورٹ قاسم (کراچی) میں قائم 1320 میگاواٹ کا بجلی گھر نیشنل گرڈ کو بجلی 8.5 سینٹ فی یونٹ کے نرخ سے فراہم کرتا ہے۔ نیپرا نے پاور چائنہ کے لئے نرخ 7 سینٹ فی یونٹ سے زیادہ کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے۔ چین کے ایک بزنس ایگزیکٹیو کا کہنا ہے کہ صدر شی جن پنگ سی پیک سے جڑے ہوئے تمام منصوبوں کو جلد از جلد مکمل کرانے میں غیر معمولی دلچسپی لے رہے ہیں۔ انہوں نے سب سے کہہ رکھا ہے کہ نفع و نقصان کا معاملہ ایک طرف ہٹا کر سب سے زیادہ توجہ اس عظیم منصوبے کو جلد از جلد مکمل کرنے پر مرکوز کریں۔ جن معاملات میں تیزی سے فیصلے کرنے ہوتے ہیں ان میں بیورو کریسی کی طرف سے فیصلوں میں تاخیر نجی چینی کمپنیوں کی بدحواسی میں مزید اضافہ کر رہی ہے۔ اس سے کسی نہ کسی مرحلے پر شی جن پنگ کا عزم بھی متاثر ہوسکتا ہے۔
اس حوالے سے بیجنگ کے کاروباری اور علمی حلقوں میں غیر معمولی خدشات پائے جاتے ہیں۔ چین کی بڑی کاروپوریشنز کے ایگزیکٹوز ایک نکتے پر تو متفق ہیں ۔۔۔ یہ کہ بجلی اور پانی کے بغیر پاکستانی حکومت گوادر کو سی پیک کے اہم ترین لنک کے طور پر کیسے کامیابی سے ہم کنار کراسکتی ہے۔ مزید 2 سال تک گوادر میں بجلی کی فراہمی کے آثار نہیں۔ ایسے میں ایئر پورٹ اور صنعتی ڈھانچے کا قیام بھی بہت مشکل نظر آتا ہے۔ گوادر میں نئے ایئر پورٹ کی فل سکیل تعمیر شروع کئے جانے کا مدار بجلی کی فراہمی پر ہے۔ اگر نیپرا اور پاور چائنہ نرخ کا معاملہ طے کر بھی لیں تو بجلی گھر کی تعمیر اور کمیشننگ 2 سال سے پہلے تو ممکن دکھائی نہیں دیتی۔ سپیشل اکنامک زونز بھی چینی بزنس منیجرز میں گرما گرم بحث کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔ چین میں حکومت جب کسی علاقے کو معاشی طور پر بہتر اور مضبوط بنانا چاہتی ہے تو زمین کی فراہمی کے ساتھ ساتھ پانی اور توانائی کی دستیابی بھی یقینی بناتی ہے۔ سروسز سیکٹر کے لئے ہائرنگ میں بھی حکومت کا کردار ہوتا ہے تاکہ غیر معمولی شرح سے سرمایہ کاری جاری رکھی جاسکے۔
پاکستان میں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ یہاں غیر ملکی نجی کاروباری اداروں کو متعلقہ حکام اور سیاست دانوں سے اجازت نامہ حاصل کرنے کے لئے جیب ڈھیلی کرنا پڑتی ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ سپیشل اکنامک زونز وفاقی اور صوبائی حکومت کے علاوہ نیپرا، اوگرا، وزارت تجارت اور وزارت خزانہ میں منقسم ہیں۔ چینی تجزیہ کاروں نے نئے ریلوے ٹریک کے حوالے سے سندھ کے وزیر اعلٰی مراد علی شاہ کے بیان کا حوالہ بھی دیا ہے۔ ایک بزنس ٹائکون کا کہنا ہے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وفاقی یا مرکزی حکومت سرمایہ کاری لائے اور ایک صوبے کا وزیر اعلٰی اسے صوبائی معاملہ بنا دے۔ اسے تو مخالفت پر کمربستہ ہونے کے بجائے موقع سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ اگر نئی اتھارٹیز سے نمٹنا پڑے تو نئے کاروباری اداروں کو سرمایہ کاری کرنے اور کام شروع کرنے کی ترغیب و تحریک کیونکر دی جاسکتی ہے ؟ چین ہی نہیں، بنگلہ دیش تک میں یہ ہوتا ہے کہ آپ سرمایہ لگائیں اور ایک مرکزی اتھارٹی ون ونڈو آپریشن کے ذریعے آپ کو ضروری دستاویزی کارروائی مکمل کرا دیتی ہے۔
گوادر کے معاملے میں ایئر پورٹ اور بجلی گھر کی تعمیر میں ہونے والی تاخیر کی قیمت کا اندازہ تو لگائیے۔ گوادر میں بجلی گھر اور ایئر پورٹ کی تعمیر کے علاوہ پانی کی فراہمی کا موثر نظام متعارف کرائے جانے کا معاملہ اس امر کا متقاضی ہے کہ بیورو کریسی کے روایتی ہتھکنڈوں کی راہ مسدود کی جائے۔ ایسا نہ ہوا تو صنعتی اور سماجی شعبے کی بھرپور ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے گا۔ سی پیک کے مخالفین اس عظیم منصوبے کی راہ میں دیواریں کھڑی کرنے کے حوالے سے جو کچھ کر رہے ہیں اسے ناکام بنانے کے لئے وزیر اعظم اور جی ایچ کیو دونوں کو مل کر پوری توجہ کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔