معیشت کی بہتری، حکومت کیا کریگی؟

Last Updated On 08 June,2019 09:06 am

لاہور: ( دنیا کامران خان کے ساتھ) پاکستان کی معیشت کی ترقی کیلئے آئندہ چند روز بہت اہم ہیں، 11 جون کو قومی بجٹ پیش کیا جا رہا ہے، یہ تاریخ کا مشکل اور اہم بجٹ ہوگا کیونکہ پاکستان اس وقت معاشی مسائل کا شکار ہے، پاکستان کو اسی لئے آئی ایم ایف کے پروگرام میں شامل ہونا پڑا، پاکستان کو اپنے بنیادی معاشی ڈھانچے میں تبدیلیاں لانی ہیں، ان میں سے ایک اہم قدم یہ ہے کہ پاکستان کی آمدن میں اضافہ ہو، اب تک ریاست کے اخراجات آمدن سے زیادہ ہیں اسی لئے پاکستان کو قرض لینا پڑتا ہے۔ حکومت نے اپنے لئے 1550 ارب روپے اضافی جمع کرنے کا چیلنج رکھا ہے، اس سال پاکستان کی آمدن 4 ارب روپے کے لگ بھگ ہے آئندہ سال یہ 5500 ارب روپے کرنے کا ہدف ہے۔

پروگرام کے میزبان کامران خان نے کہا ہے کہ حکومت نے اس حوالے سے عوام پر مزید ٹیکس لگانے کا فیصلہ کیا ہے، ان ٹیکسوں کی وجہ سے امیروں اور غریبوں دونوں پر بوجھ بڑھے گا، حکومت نے ایک اور قدم اٹھایا ہے کہ جو غیر دستاویزی معیشت ہے اسے دستاویزی بنایا جائے جس کیلئے ایمنسٹی سکیم دی گئی ہے، غیر دستاویزی کاروبار میں رئیل سٹیٹ یا پراپرٹی کا کاروبار ہے، پاکستان میں دیکھا گیا ہے کہ کالے دھن کی سب سے بڑی پارکنگ رئیل سٹیٹ ہے، وزیر اعظم نے اسی لئے اس کیلئے نئی ٹیم بھی لائے ہیں۔ رئیل سٹیٹ سیکٹر میں خامیاں دور ہو جاتی ہیں تو کسی حد تک معاشی حالات ٹھیک ہوجائیں گے۔ مشیر خزانہ حفیظ شیخ، وزیر مملکت حماد اظہر اور چیئرمین ایف بی آر سید شبر زیدی اس حوالے سے اپنا لائحہ عمل بھی سامنے لاچکے ہیں۔

اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین عارف حبیب گروپ عارف حبیب نے کہا کہ اگر میں اس پوزیشن پر ہوتا تو سب سے پہلے تو افراط زر سے نمٹنے کی کوشش کرتا، موبائل فون کارڈ پر بحال ٹیکس کو بھی شامل کرتا، پچھلی حکومتوں میں تنخواہوں پر ٹیکس رعائتیں کم کرتا، سب سے اہم ٹیکس ریکوری کو بہتر کرتا، ملک کی شرح نمو کو بڑھا کر ٹیکس وصولیاں بہتر بناتا، معاشی سرگرمی بڑھے گی تو وصولیاں بہتر ہونگی۔ حکومت سرمایہ کاری بڑھانے کیلئے اقدامات کرے تو اس سے لوگوں میں اعتماد آئے گا ٹیکس نیٹ بھی بڑھے گا۔ یہ ٹیکس ایمنسٹی اتنی کامیاب نہیں ہوگی جتنی سابقہ حکومت میں ہوئی تھی۔

صدر فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز داروخان اچکزئی نے کہا کہ اگر اتنا بڑا ہدف مجھے دیا جائے تو میں عوام کو بوجھ کے بجائے سہولیات دوں گا، برنس کمیونٹی سے اضافی ٹیکس لینے کیلئے انہیں اعتماد میں لینا ہوگا، میرے خیال میں ہدف حاصل کرنا ناممکن ہے۔ اہداف پورے کرنے کیلئے حکومت بزنس مینوں کے ساتھ بیٹھے، سنا ہے 5 سیکٹرز کو زیرو ریٹنگ سے نکال رہے ہیں یہ مسئلے کا حل نہیں ہے، 300 ارب روپے ریفنڈ میں پھنسے ہیں ابھی تک بانڈز بھی جاری نہیں کیے گئے۔ حکومت اس سکیم ٹائم بڑھائے اور شرائط بھی نرم کرے تو زیادہ فائدہ ہوگا۔ تمام سیکٹرز کو مراعات کا حصہ بنایا جائے۔

ماہر ٹیکس امور ڈاکٹر اکرام الحق نے کہا کہ جو لوگ ٹیکس دے رہے ہیں ان پر مزید ٹیکس نہیں ڈالا جائے گا، جو ٹیکس نہیں دے رہے ان کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا، جو بغیر کسٹم ڈیوٹی چیزیں ملک میں آرہی ہیں ان سے ٹیکس وصول کیا جاسکتا ہے، کسٹم کی اہلیت کو بڑھانا ہوگا، جو ریٹیلرز یا بڑے ریسٹورنٹس ہیں ان کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے سکین کیا جاسکتا ہے، ٹرکوں کے چھوٹے بڑے اڈوں سے کروڑوں روپے ٹیکس وصول ہوسکتا ہے، ٹیکسٹائل کے مقامی فروخت پر بھی ٹیکس وصول کرنا ہوگا۔ ماضی میں گروتھ کی جگہ ٹیکسز وصولی پر زیادہ توجہ دی گئی، نہ ہماری شرح نمو بڑھی اور نہ ہی ٹیکس وصولی ہوسکی۔ اس ٹیکس ایمنسٹی سکیم کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں، باہر سے بہت سارے لوگوں کا ڈیٹا آچکا ہے، بجٹ میں نان فائلرز کا تصور ختم کرنے کیلئے ٹیکسز لگائے جائیں۔ زیر ریٹ ختم کرنے کا منفی اثر پڑے گا۔

پیٹرن انچیف اپٹما گوہر اعجاز نے کہا کہ ملک میں سمگلنگ کو روک کر ٹیکس نیٹ بڑھانا ہوگا، 15 سو ارب روپے کے اضافی ٹیکس کیلئے زراعت، ریٹیل سیکٹر پر توجہ دینا ہوگی، افغان ٹرانزٹ کا غلط استعمال روکنے کیلئے ایف بی آر اور کسٹمز کو ٹھیک کرنا ہوگا، ماضی میں آئی پی پیز کو دی گئی مراعات پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے، شرح نمو میں اضافہ ہوگا تو اضافی ٹیکس کا ہدف حاصل کیا جاسکے گا۔ اس وقت ایمنسٹی سکیم میں ریٹ اچھا ہے، بلیک منی والوں کو فائدہ اٹھانا چاہئے، اب کوئی دیئے بغیر اور فائلر بنے کاروبار نہیں چلاسکتا۔ انڈسٹریز کی مراعات دی نہیں جا رہیں اگر ہیں تو واپس لے لی جائیں، عزت دینے پڑے گی پھر کچھ ملے گا۔ ایکسپورٹ کیلئے کیے گئے وعدے پورے کرنا ہونگے۔

ماہر رئیل سٹیٹ امور راجہ مظہر نے کہا کہ پراپرٹی سیکٹر میں جو جمود ہے اسی طرح رہے گا کیونکہ ایف بی آر کی طرف سے جو اقدامات کیے گئے ہیں وہ ناکافی ہیں، لوگ بجٹ کا انتظار کر رہے ہیں، اچھی پالیسیاں آئیں تو بہتر ہوگا ورنہ یہ جمود طاری رہے گا۔ نئے چیئرمین ایف بی آر پراپرٹی سیکٹر کو اچھی طرح سمجھتے ہیں، رئیل سٹیٹ سیکٹر میں تیزی آئی تو 50 لاکھ گھروں کا وعدہ پورا ہوسکتا ہے۔