لاہور: (دنیا کامران خان کیساتھ) مریم نواز کی جانب سے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کے حوالے سے دکھائی گئی ویڈیو سچی ہے تو نواز شریف جیل سے باہر آسکتے ہیں لیکن اگر یہ ثابت ہوگیا کہ ویڈیو ایڈٹ کی گئی، دوبارہ بنائی گئی یا اس میں جوڑ توڑ ہے تو مریم نواز کا کیریئر ختم ہو سکتا ہے اور وہ گرفتار بھی ہوسکتی ہیں۔ ان خیالات کا اظہار میزبان 'دنیا کامران خان کے ساتھ' نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہا جج ارشد ملک نے اس ویڈیو کو مسترد کر دیا ہے لیکن ان کی پریس ریلیز میں کہیں اقرار تھا اور کہیں یکسر انکار موجود تھا۔ انہوں نے ویڈیو کو حقائق کے برعکس کہا اور کہا کہ مجھ پر بالواسطہ یا بلاواسطہ کوئی دباؤ نہیں مگر ساتھ ہی بیان دیا کہ نواز شریف کیخلاف مقدمہ کے دوران مجھے انکے نمائندوں کی طرف سے رشوت پیش کی گئی اور سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔
میزبان نے کہا کہ جج ارشد ملک نے ویڈیو کے گواہ ناصر بٹ سے اپنی پرانی شناسائی کو تسلیم بھی کیا ہے۔ دوسری جانب تحریک انصاف دو مختلف موقف دے چکی ہے۔ فردوس عاشق اعوان نے فرانزک آڈٹ کرانے کا کہا اور معاون خصوصی شہزاد اکبر نے عدلیہ کو ایکشن لینے کا کہا۔ چونکہ شہزاد اکبر کا بیان بعد میں آیا ہے اس لئے شاید حکومت دیکھنا چاہتی ہے کہ معاملے کا عدالتی رخ کیا سامنے آتا ہے۔ وزیر اعظم عمران کا بھی بیان آیا ہے کہ عدلیہ آزاد و خود مختار ہے ۔ حکومت کو اس معاملے میں پارٹی نہیں بننا چاہیے ، ماہرین کا بھی یہی کہنا ہے اس معاملے کو عدالت کو ہی دیکھنا چاہیے۔
پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے قانون دان اعتزاز احسن نے کہا اگر فرانزک ٹیسٹ میں ویڈیو درست ثابت ہوجاتی ہے تو مریم نواز نے بہت بڑا چھکا مارا ہے، لیکن امکان ہے کہ یہ ویڈیو الٹی پڑسکتی ہے ، ویڈیو میں جوڑ توڑ ہوا تو مریم نواز جیل جاسکتی ہیں۔ ماہر قانون کامران مرتضیٰ نے کہا ویڈیو اگر سچی ہے تو نواز شریف کا مقدمہ دوبارہ چلے گا اگر جھوٹی ہوئی تو مریم نواز کے خلاف توہین عدالت کا کیس چل سکتا ہے اور فوجداری کارروائی بھی ہوسکتی ہے۔
ماہر قانون سعد رسول کا کہنا تھا کہ ویڈیو کو عدالت کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔ وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا ہے کہ اس ویڈیو سے نواز شریف کو کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔ سابق وزیر قانون سید علی ظفر نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک طرح سے عدلیہ کے ادارے اور احتساب کے پورے عمل پر حملہ ہے، اگر ویڈیو میں ٹمپرنگ کی گئی ہے تو یہ جھوٹی ویڈیو کے زمرے میں شمار ہو گی جبکہ ویڈیو سچی نکلی تو جج صاحب کو ہٹایا جائے گا۔ پہلے فیصلہ کرنا ہوگا کہ ویڈیو درست ہے یا غلط، معاملے کو دبایا نہیں جاسکتا۔