لاہور: (تجزیہ : سلمان غنی) وائٹ ہاؤس کی جانب سے پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے دورہ امریکہ اور 22 جولائی کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی واضح تصدیق کے باوجود اس امر کا کھوج لگانا ضروری ہے کہ آخر پاکستانی وزیراعظم عمران خان جنہیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے باقاعدہ دورہ کی دعوت دی گئی یہ دعوت امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیو کے ذریعہ دی گئی تو پھر اس دورہ کے حوالے سے کنفیوژن کیونکر پیدا ہوئی اور وائٹ ہاؤس کی ترجمان کو کیونکر یہ کہنا پڑا کہ میں دورہ کی تصدیق یا تردید وائٹ ہاؤس سے رابطہ کے بعد ہی کروں گی۔ اہم بات یہ ہے کہ انہیں یہ سوال یہاں موجود ایک بھارتی صحافی نے کیا، جس کا انہوں نے جواب دیا اور بعد ازاں پاکستانی صحافی کی جانب سے اٹھائے جانے والے سوال کا جواب نہیں دیا جو ظاہر کرتا ہے کہ بھارتی صحافی کا سوال کسی پلاننگ کا حصہ تھا جس کے جواب میں ترجمان نے یہ کہہ کر میں دورہ کی تصدیق یا تردید وائٹ ہاؤس سے رابطہ کے بعد کروں گی جس سے کنفیوژن پیدا ہوئی۔
امریکہ سے آمدہ اطلاعات کے مطابق یہ کنفیوژن وہاں موجود بھارتی لابی کی کاوشوں کا شاخسانہ ہے اور خود امریکہ میں موجود ہمارے سفارتکار اور ذمہ دار تسلیم کرتے ہیں کہ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سمیت امریکی اداروں میں ہندو لابی بہت مضبوط ہے جو بھارت کے مفادات کا تحفظ اور خصوصاً پاکستان کے خلاف متحرک نظر آتے ہیں جبکہ پاکستان کی لابنگ اس کے مقابلہ میں بہت کمزور ہے جس کی بہت سی وجوہات ہیں اور کبھی بھی اپنی حیثیت، اہمیت بڑھانے کیلئے مربوط حکمت عملی پر کام نہیں کیا گیا۔ ان حلقوں کے مطابق جب سے پاکستانی وزیراعظم عمران خان کو صدر ٹرمپ کی جانب سے دورہ کی دعوت ملی یہاں موجود ہندو لابی کے ہاتھ پاؤں پھولے نظر آ رہے ہیں۔اور اب وہ اس دورہ پر اثر انداز ہوئے، پاکستان کی پوزیشن کو خراب کرنے اور بھارتی مفادات کے تحفظ کیلئے سرگرم ہیں لہٰذا یہ صورتحال وزیراعظم عمران خان کے دورہ امریکہ کے حوالے سے اہم ہوگی اور انہیں اس دورہ کو روایتی دورہ سمجھنے کے بجائے اس کے حوالے سے سنجیدگی اختیار کرنا ہوگی کیونکہ عمران خان کی حکومت کو خارجہ محاذ پر بعض معاملات میں اٹھائی جانے والی سبکی کے بعد ضرورت اس امر کی تھی کہ یہ معاملات اپنے مشیروں پر چھوڑنے کے بجائے خارجہ آفس کے ذمہ داران پر اعتماد کیا جاتا کیونکہ یہاں سے ہی وزیراعظم عمران خان کی صدر ٹرمپ کے دورہ کی خبر آئی اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سمیت بعض وزراء اور ذمہ داران اسے غیر معمولی قرار دیتے اور دیگر تفصیلات ظاہر کرتے نظر آئے اور اس امر کا بھی انتظار نہ کیا گیا کہ میزبان ملک کی جانب سے باقاعدہ اس دورہ کا اعلان ہو جاتا۔
اس اعلان پر امریکی صدر ٹرمپ سے وزیراعظم عمران خان کی ملاقات 22 جولائی کو ہوگی۔ لیکن وائٹ ہاؤس کی ترجمان کی جانب سے دورہ سے لا علمی کے ایشو کو ضرور دورہ میں اٹھایا جانا چاہئے کیونکہ یہ پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ کسی پاکستانی وزیراعظم کے کسی غیر ملکی دورہ خصوصاً امریکی دورہ کے حوالے سے ایسا تنازع اٹھا ہو دوسری جانب خود وزیراعظم عمران خان کو بھی خارجہ محاذ پر اپنی بعض مصروفیات اور دوروں کے حوالے سے آنے والی خبروں کا نوٹس بھی لینا چاہئے کہ آخر ایسی خبریں کہاں سے آ رہی ہیں کیونکر آ رہی ہیں اور ان کے مقاصد کیا ہیں ؟ کیونکہ چند روز قبل وزیراعظم عمران خان کی روسی صدر پوٹن سے ملاقات کی خبر آئی تھی اور کہا گیا تھا کہ وہ چار سے چھ ستمبر کو ہونے والی ایسٹرن اکنامک فورم میں شریک ہوں گے۔ بعد ازاں اس خبر کی بھی خارجہ آفس کو تردید کرنا پڑی تھی۔ پاکستانی وزیراعظم کے دورہ امریکہ سے قبل ہی ہندو لابی دورہ کی ناکامی کیلئے سرگرم عمل ہے۔ لہٰذا اس صورتحال کے سدباب اور اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے ابھی سے ذمہ داریوں کا تعین ہو جانا چاہئے۔
وزیراعظم عمران خان کے دورہ کو افغانستان میں امن کیلئے جاری عمل کی نتیجہ خیزی کے حوالے سے اہم قرار دیا جا رہا ہے لہٰذا بھارت نہیں چاہے گا کہ پاکستان کے مصالحتی کردار کے نتیجہ میں افغانستان میں امن قائم ہو اور خطہ میں اس کی اہمیت و حیثیت بڑھے۔ لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے دورہ امریکہ میں جہاں افغانستان میں امن عمل کے آگے بڑھنے اور نتیجہ خیز ہونے کا امکان ہے تو خود پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکراتی عمل کی بحالی کیلئے بریک تھرو بھی ہو سکتا ہے جس کیلئے پا کستان کو اپنا کیس مؤثر انداز میں پیش کرنا ہوگا مذکورہ دورہ جہاں خود وزیراعظم عمران خان کی اہلیت و صلاحیت کا امتحان ہے وہاں یہ پاکستان کے علاقائی مفادات کے حوالے سے بھی نہایت اہمیت کا حامل ہوگا جسے معمول کا دورہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔