کھایا پیا کچھ نہیں، نقصان 9 کھرب کا

Last Updated On 18 July,2019 09:25 am

کوئٹہ: (عرفان سعید سے) ملک کے سب سے بڑے سونے اور تانبے کے منصوبے ریکوڈک پر غیر ملکی کمپنی ٹیتھیان کی جانب سے عالمی عدالت انصاف میں دائر مقدمے کا فیصلہ پاکستان کیخلاف آنے کے بعد وزیراعظم کی جانب سے اس معاملے پر کمیشن بنانے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ اب دیکھنا یہ کہ یہ کمیشن کب تک اپنا کام شروع کرے گا۔ ریکوڈک منصوبے پر دنیا کی بڑی کمپنیوں کی نظریں گذشتہ کئی دہائیوں سے لگی ہیں۔ سابق وزیراعلیٰ نواب محمد اسلم رئیسانی کے دور میں ٹی سی سی کے ساتھ ریکوڈک منصوبے کو ملک کے لئے نقصان دہ قرار دیا گیا تھا۔ ایسی خبروں کا شائع ہونا تھا کہ اس وقت کی بلوچستان حکومت نے اس پر اپنا شدید ردعمل ٹی سی سی کیخلاف دیدیا۔ پھر 2011ء میں کمپنی کی جانب سے ریکوڈک میں مائننگ کی درخواست کو مسترد کر دیا۔

ٹی سی سی کی جانب سے صوبائی حکومت سے بارہا مذاکرات کی کوششیں کی گئیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی صوبائی حکومت کو ٹی سی سی کے ساتھ معاملات طے کرنے کی ہدایت کی لیکن نواب محمد اسلم رئیسانی اور ان کی حکومت نے اپنا مؤقف تبدیل نہ کیا۔ ٹی سی سی کے ساتھ ریکوڈک معاہدے کو بلوچستان ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا مگر ہائیکورٹ نے مقدمے کو ناقابل سماعت قرار دیدیا جس کے بعد سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا۔ سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے ٹی سی سی کے ساتھ ہونے والے معاہدے کو قواعد کی خلاف ورزی پر کالعدم قرار دیدیا۔ کمپنی بعد ازاں عالمی عدالت انصاف میں چلی گئی جہاں پر اس نے پاکستان پر 16 ارب ڈالرز ہرجانے کا دعویٰ دائر کیا۔ پاکستان نے جن قانونی ماہرین کی خدمات حاصل کیں ان میں برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر کی اہلیہ بھی شامل تھیں۔ حکومت پاکستان نے جو مؤقف اختیار کیا ان میں یہ نکتہ بھی شامل تھا کہ ٹی سی سی نے بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے افسران کو رشوت دے کر ابتدائی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مزید علاقے اپنے لیز میں شامل کرائے۔ تاہم بین الاقوامی ثالثی فورم انٹرنیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹس (ایکسڈ) نے گذشتہ دنوں اپنے فیصلے میں پاکستان ٹیتھان کمپنی کو 5 ارب 97 کروڑ ڈالرز (9 سو 44 ارب روپے) کا جرمانہ ادا کرنیکا حکم دے دیا۔

یہ فیصلہ پریشان کن ہے لیکن ہماری اطلاعات کے مطابق بلوچستان حکومت نے ٹی سی سی کے ساتھ معاملات طے کرنے کیلئے ایک بار پھر سے کوششیں شروع کر دی ہیں اور جلد ہی اس حوالے سے اہم پیش رفت متوقع ہے۔ تاہم اس دوران بڑے غیر ملکی وکلاء اور دیگر شخصیات کو ادا کی جانے والی 9 سو 44 ارب روپے کی رقم کی بھی تحقیقات ہونی چاہیے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے 3 سال میں پاکستان کو جو قرضہ ملنا ہے وہ جرمانے کی رقم کے برابر ہے۔ بلوچستان کو اس منصوبے سے کوئی فائدہ نہیں تاہم بعض سیاسی حلقوں کا یہ بھی خیال ہے کہ اگر موجودہ حکومت نے ٹیتھان کمپنی کی جانب سے مذاکرات کی دعوت قبول کی تو اس کا مقصد یہ ہوگا کہ موجودہ حکومت اور بین الاقوامی سرمایہ دار بلوچستان کیخلاف ایک پیج پر آچکے ہیں، وہ ہمارے وسائل لوٹنے کیلئے یہ ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں۔ لہٰذا اگر وفاقی حکومت نے کوئی معاہدہ کرنا ہے تو اس کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے اور صوبائی حکومت سمیت صوبے کے عوام اور سیاسی قیادت کو اس معاملے میں اعتماد میں لے۔

دوسری جانب بلوچستان سے سینیٹ کے پہلے منتخب چیئرمین محمد صادق سنجرانی کیخلاف اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تحریک عدم اعتماد لانے کے بعد سے جہاں ملک بھر میں سیاسی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے وہاں بلوچستان میں بھی اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کی سرگرمیاں عروج پر پہنچ چکی ہیں۔ اگرچہ چیئرمین سینیٹ محمد صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد آنے کے بعد ان کی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے سربراہ وزیراعلیٰ جام کمال اس مشکل گھڑی میں غیر ملکی دورے پر ہیں جس سے ان کی پارٹی کے سربراہ کی اپنے چیئرمین سینٹ کو بچانے کی کوششوں کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ چیئرمین سینیٹ کے حامی بعض حلقوں کی جانب سے یہ تاثر سامنے آیا کہ بلوچستان سے منتخب چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے سے بلوچستان کے احساس محرومی میں اضافہ ہو جائے گا اور بلوچستان کے عوام میں یہ تاثر ایک بار پھر گہرا ہوجائے گا کہ وفاق کی سیاسی جماعتیں بھی صوبے کا احساس محرومی ختم کرنانہیں چاہتیں۔

اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے نیشنل پارٹی کے سابق سربراہ میر حاصل بزنجو کو سینیٹ کے نئے چیئرمین کے عہدئے کیلئے متفقہ طور پر امیدوار نامزد کیے جانے کے بعد محمد صادق سنجرانی کی حامی جماعتوں کی جانب سے ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے سے احساس محرومی بڑھ جانے کا مؤقف کمزور پڑتا نظر آرہا ہے۔ اب اس حوالے سے کچھ سخت مؤقف نظر نہیں آرہا ۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل کا بیان سامنے آیا ہے کہ محمد صادق سنجرانی کو ان کے عہدے سے ہٹانے سے صوبے کا نہیں بلکہ کچھ لوگوں کا احساس محرومی بڑھ جائے گا۔