دیکھنا یہ ہوگا امریکا کا پاکستان پر اعتماد وقتی یا آگے چل سکے گا

Last Updated On 27 July,2019 09:04 am

لاہور: (تجزیہ :سلمان غنی) امریکا نے پاکستان کے ساتھ اپنے مذاکرات کو کامیاب قرار دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ افغان امن عمل کے حوالے سے امریکی کردار پر شک نہیں کیا جا سکتا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا نے اربوں ڈالرز خرچ کئے۔ تاہم خطے میں امن کے حوالے سے حتمی ڈیڈ لائن نہیں دے سکتے۔ امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان مورگن اورٹیگس نے زور دے کر کہا کہ پاک امریکا تعلقات میں پیش رفت کا وقت آ گیا۔ پاکستان اور امریکا کے درمیان ایک مضبوط تعلق کا راستہ افغانستان کے تنازع میں ایک پر امن حل کیلئے مشترکہ کوششوں سے گزرنا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا کی اولین ترجیح افغانستان میں امن عمل کو یقینی بناتے ہوئے اپنی فورسز کی واپسی سے جس کا وعدہ خود صدر ٹرمپ اپنے عوام سے کر چکے ہیں اور مطلوبہ نتائج کی فراہمی کیلئے انہیں پاکستان کی ضرورت ہے۔

اب دوسری جانب امریکا میں پاک امریکا لیڈر شپ کے درمیان ملاقاتوں میں ہونے والی پیش رفت کے بعد خود طالبان کا بھی بیان آ گیا ہے کہ پاکستان سے ملنے کی خواہش ظاہر کی تو طالبان عمران خان سے ملنے کیلئے تیار ہوں گے اور طالبان کی یہ پیش کش پاکستان کی سنجیدہ کوششوں اور کاوشوں پر اعتماد کا اظہار ہے۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ امریکا کا پاکستان پر حد درجہ اعتماد اور محبت وو پیار کا سلسلہ وقتی ہے یا آگے چل سکے گا۔ اسے خصوصی طور پر دیکھنا ہوگا اس لئے کہ امریکا کے کردار کو دیکھا جائے تو اس کا کردار ہاتھی کے دانتوں والا ہوتا ہے جو کھانے کیلئے کچھ اور دکھانے کیلئے کچھ اور ہوتے ہیں۔ امریکا کو اپنے علاقائی مقاصد اور مشکلات سے نجات کیلئے پاکستان کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں اسے افغانستان میں اپنی شکست کے تاثر کو ختم کرتے ہوئے اپنی قوموں کی فتح کے شور کے ساتھ نکالنا ہے۔ یہ ٹرمپ کی سیاسی ضرورت بھی ہے اور امریکی ایجنڈے کا خاصہ حصہ بھی۔

امریکا میں ملنے والے زبردست پروٹوکول اور اچھے بیانات اور اعلانات کے ساتھ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ یہ وہی امریکا ہے جس کا پاکستانی اتحادی بن کر ہزاروں عام افراد اور اپنے کئی ہزار فوجی جوان قربان کر چکا ہے لیکن اس امریکا نے پاکستان کو ڈو مور کے تقاضوں اور دھمکیوں کے سوا کچھ نہیں دیا۔ ہمارا اربوں ڈالرز کا نقصان ہوا۔ نقصان کا مداوا نہیں کیا گیا۔ الٹا اپنا وزن ہندوستان کے پلڑے میں ڈال کر پاکستان کو چڑاتا رہا لہٰذا اب وہ پاکستان پر اگر مائل بہ کرم ہے تو اپنے مفاد میں ہے۔ لہٰذا ہمیں اپنے مفادات بھی دیکھنے چاہئیں اور اب نیا امتحان جو افغان امن عمل کے حوالے سے پاکستان کا ہے اس پر زور ہے۔ طالبان کے پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں لیکن وہ خود کو پاکستان کا پابند نہیں سمجھتے اور نہ ہی پاکستان ان کا زیادہ امتحان لیتا ہے۔ دو طرفہ احترام کا تعلق ہے اور یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے اپنے دورہ سے واپسی پر طالبان سے بات چیت کا عندیہ دیا تو طالبان نے وزیراعظم عمران خان سے ملنے پر آمادگی ظاہر کر دی اور کہا کہ مذاکرات کامیاب ہوئے تو افغان حکومت سمیت سب فریقوں سے بات چیت ہوگی لہٰذا اب دیکھنا یہ ہے کہ افغان امن عمل میں اصل رکاوٹ کیا ہے۔

طالبان براہ راست اشرف غنی انتظامیہ سے بات چیت نہیں چاہتے کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم دو دہائیوں کی جدوجہد کے بعد یہاں تک پہنچے ہیں تو امریکا ہم سے مذاکرات پر مجبور ہوا جو کچھ کرنا ہے اور امن عمل کے حوالے سے جہاں ملنا ہے یہ امریکا سے طے ہوگا اور یہ بھی گمان کیا جا رہا ہے کہ طالبان کو اشرف غنی انتظامیہ سے ملنے سے کسی اور علاقائی قوت سے دور رکھا ہو جہاں تک اشرف غنی انتظامیہ کا تعلق ہے تو سب سے زیادہ خوفزدہ وہ ہیں کیونکہ امریکا نے براہ راست طالبان سے مذاکرات کر کے عملاً ان کی نفی کر دی اور خود افغانستان کے اندر ان کی رہی سہی اہمیت و حیثیت کو بھی دھچکا لگا۔ اب جبکہ یکم ستمبر کو امریکا اپنی فورسز کی واپسی پر مصر ہے تو اسے جلدی اس بات کی ہے کہ جلد از جلد افغان عمل پایہ تکمیل کو پہنچیں اور وہ اطمینان کے ساتھ واپسی کی راہ لے جبکہ اشرف غنی انتظامیہ کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر ان کے مستقبل کے حوالے سے کوئی چیز طے نہیں ہوئی اور امریکی افواج یہاں سے چلی جاتی ہیں تو پھر ہم کیا طالبان کے رحم و کرم پر ہوں گے۔ لہٰذا افغان حکومت کی حالت تو ‘‘ہم تھے جن کے سہارے وہ رہے نہ ہمارے ’’ والی حقیقت سے دو چار ہیں۔ لہٰذا مذکورہ صورتحال کے پیش نظر ہی افغان امن عمل کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ اب فیصلہ کن مرحلہ میں ہے اور اس میں امریکا، طالبان کے بعد بڑا کردار پاکستان کا ہے اور پاکستان یہ سارا عمل خود اپنے مفاد میں سمجھتا ہوا کر رہا ہے کیونکہ افغانستان میں امن ہوگا تو خطے میں استحکام آئے گا۔

نریندر مودی نے ایسی بات نہیں کی جس سے ان کی کشمیر کے حولے سے نیت ظاہر ہوتی ہے لیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ صدر ٹرمپ کے اس بیان سے کشمیر کی بین الاقوامی حیثیت بڑھی ہے اور اس امر کا ادراک ہوا ہے کہ امریکا اس کی قیادت کشمیر کو خطے کا بڑا مسئلہ سمجھتی ہے، اسے کشمیر پر بریک تھرو قرار دیا جا سکتا ہے لیکن اس بیان سے خود نریندر مودی اور بھارت کی جو پوزیشن بنی ہے اب دیکھنا ہوگا کہ امریکا کب تک اس بیان پر قائم رہتا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کے حوالے سے عام رائے یہی ہے کہ وہ کسی بھی وقت کچھ بھی کہہ سکتے ہیں اور اس امکان کو خارج از امکان نہیں کہا جا سکتا کہ آنے والے دنوں میں وہ کشمیر اور پاک بھارت مذاکرات، تعلقات بارے ایسا بیان دے دیں جو بھارتی قیادت کو اس کیفیت سے نکالنے کا باعث بنے لہٰذا ہمیں صدر ٹرمپ کے یوٹرن پر حیران نہیں ہونا چاہئے۔
 

Advertisement