لاہور: (تجزیہ : سلمان غنی) قومی انتخابات کے ایک سال بعد حکومت کی جانب سے یوم تشکر اور اپوزیشن کی جانب سے یوم سیاہ منانے کا عمل ظاہر کر رہا ہے کہ سیاسی محاذ پر ٹھہراؤ اور حکومت اور سیاسی قوتوں کے درمیان ڈائیلاگ کے بجائے محاذ آرائی، تناؤ اور کشمکش کی صورتحال طاری ہے اور پہلے ہی سال میں اپوزیشن کی جانب سے منتخب ایوانوں کے بجائے میدانوں میں نکل کر منتخب حکومت کو چیلنج کرنے کا عمل ظاہر کر رہا ہے کہ آنے والے حالات میں سیاسی استحکام ممکن نہیں اور اگر یہی صورتحال جاری رہی تو کیا ملک میں معاشی صورتحال بہتر اور استحکام آ سکے گا ،اس کا فائدہ کسے اور نقصان کسے ہوگا ؟ کیا اپوزیشن کا احتجاجی عمل ٹیک آف کر پائے گا ؟ کیا حکومت احتجاجی سیاست پر اثر انداز ہو سکے گی؟ کیا حکومت مسائل زدہ عوام کو ریلیف فراہم کر پائے گی؟۔
یہ وہ سوالات ہیں جو سیاسی محاذ پر جنم لے رہے ہیں اور اس کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے کہ محاذ آرائی اور انتشار کی صورتحال حکومت کیلئے اچھی نہیں ہوتی کیونکہ ان کے پاس کھونے کیلئے بہت کچھ ہوتا ہے جبکہ دوسری جانب اپوزیشن ہمیشہ حکومت کو ٹف ٹائم دے کے انہیں دفاعی محاذ پر رکھتی ہے جس سے براہ راست اس کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے اور وہ اپنے مینڈیٹ پر اس کی سپرٹ کے مطابق عمل نہیں کر پاتی۔ اس امر میں دو آراء نہیں کہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت سے عوام کو بہت سی امیدیں، توقعات تھیں اور لوگ سمجھتے تھے کہ احتسابی عمل کے نتیجہ میں لوٹا سرمایہ واپس آئے گا۔ بیرون ملک کے لوگ سرمایہ کاری کیلئے پاکستان کی طرف رجوع کریں گے ٹیکس کا سسٹم مؤثر بنے گا۔ وزیراعظم عمران خان کرپشن پر کمپرو مائز کرنے کیلئے تیار نہیں اور وہ اندرون و بیرون ملک یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ کرپشن اور لوٹ مار کرنے والوں کو معاف نہیں کریں گے۔ یقیناً ان کے اس بیانیہ کو اندرون و بیرون ملک پذیرائی ملی ہے لیکن اس کے ساتھ ان کی حکومت عوامی سطح پر ڈلیور کرنے کی پوزیشن میں نظر نہیں آتی جس کے باعث عوامی رائے عامہ یہ بنتی جا رہی ہے کہ ماضی کے چور، لٹیروں کو پکڑنے کی آڑ میں مہنگائی زدہ عوام کا جو بھرکس نکل رہا ہے۔
حکومت کو اس کا کوئی احساس نہیں اور اب جلتی پر تیل خود اپوزیشن جماعتوں نے ڈالنا شروع کر دیا ہے۔ اپوزیشن کے احتجاج سے نمٹنے کیلئے سیاسی طرز عمل کے بجائے انتقامی ہتھکنڈوں کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں سیاسی کارکنوں پر مقدمات کا عمل ظاہر کر رہا ہے کہ تحریک انصاف کی منتخب حکومت کے ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے ہیں اور وہ ان سے خوفزدہ ہیں۔ سیاسی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جب حکومت عوام کے مسائل حل کر رہی ہو، اشیائے ضروریہ کی قیمتیں عوام کی دسترس میں ہوں تو پھر اپوزیشن کا احتجاج زور نہیں پکڑتا، اسے عوامی پذیرائی نہیں ملتی اور عوام اپوزیشن کے بجائے حکومت کی جانب دیکھتے ہیں مگر موجودہ حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد مہنگائی کے طوفان نے خود عوام کو ہی نہیں حکومت کو بھی پریشان کر رکھا ہے۔ حکومت ڈلیور کرنا چاہتی ہے مگر ایسا نہیں ہو رہا۔ لوگ پریشان ہو رہے ہیں۔ بجلی کے بلوں نے ان کا جینا اجیرن بنا دیا۔
جہاں تک اپوزیشن کے احتجاج اور احتجاجی تحریک کا سوال ہے تو انہوں نے قومی انتخابات کے ایک سال مکمل ہونے پر چاروں صوبائی دارالحکومتوں میں متحدہ اپوزیشن کے پلیٹ فارم سے احتجاج کر کے ظاہر کیا ہے کہ وہ حکومت سے کسی خیر کی توقع نہیں رکھتے۔ اگست کے آخر میں اسلام آباد لانگ مارچ کا آپشن بھی زیر غور ہے مگر فی الحال پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن اس کی حمایت کرتی نظر نہیں آ رہیں اور ابھی حتمی اقدام کے اعلان سے گریزاں ہیں۔ اپوزیشن متحد ہونے کے باوجود مسلسل اور ملک گیر تحریک کی پوزیشن میں تو نہیں لیکن یہ اسلام آباد تک لانگ مارچ کے آپشن پر ضرور غور کرے گی کیونکہ مولانا فضل الرحمن کی سوچ متحدہ اپوزیشن پر غالب آتی نظر آ رہی ہے جو جمہوری عمل اور سسٹم کے حوالے سے اچھی نہیں۔ وزیراعظم عمران خان امریکا کا کامیاب دورہ کر کے آئے ہیں، انہیں چاہئے کہ بیرونی محاذ پر اپنی کامیابی کا یہ سلسلہ اندرونی ملک بھی آزمانے کی کوشش کریں۔ اب وہ تحریک انصاف کے لیڈر نہیں ملک کے و زیراعظم ہیں اور یہ سب سے اہم منصب ذمہ داری ٹھہراؤ اور سیاسی طرز عمل کا متقاضی ہے۔ اپوزیشن کو دشمن سمجھنے کے بجائے ان کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھائیں اور معاشی بحران کے خاتمہ کیلئے ان سے تعاون مانگیں۔ عوام کو ان کی قیادت اور حکومت سے بہت سی توقعات تھیں وہ پوری نہیں ہو پا رہیں خدانخواستہ اگر تیسری پارٹی کا تجربہ بھی ناکام رہا تو سیاسی محاذ پر ان کا نعم البدل کوئی نہیں ہوگا اور ملک کی سیاسی قوتوں کو ناکام سمجھا جائے گا جب تک وہ ملک کے اندر مضبوط نہیں ہوں گے ان کی حکومت مستحکم نہیں ہوگی۔