لاہور: (روزنامہ دنیا) وزیر اعظم کا دورہ امریکا ہر لحاظ سے کامیاب رہا ہے چاہے یہ ان کی ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے حوالے سے ہو یا امریکی حکام کے حوالے سے یا پاکستان کی ملٹری قیادت کی ملاقاتیں ہوں اس میں بریک تھرو سامنے آئے ہیں۔
میزبان دنیا کامران خان کے ساتھ کے مطابق وزیر اعظم عمران خان امریکا کے کامیاب ترین دورے بلکہ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق ایک بریک تھرو دورے کے بعد پاکستان واپس آ رہے ہیں، وہ ایک شاہکار لمحہ تھا جب وزیر اعظم نے ایک شاندار جلسے سے خطاب کیا۔ یہ اپنی نوعیت کا ایک تاریخی جلسہ تھا۔ اس دورے کے اثرات سامنے آئیں گے، پاکستان کی پوزیشن اور وقار میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 3 دن سے بھارت میں کہرام جاری ہے اور وہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ بھارتی لابی پر اس وقت سکتہ طاری ہے۔
واشنگٹن سے پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس حوالے سے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چند جملوں میں یہی کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کابیانیہ پہلے سمجھا نہیں جا رہا تھا، پاکستان کا بیانیہ پیش کرنے میں ہمیں کامیابی ملی، پچھلے 5 سال میں اعلیٰ سطح کا کوئی رابطہ نہیں ہوا تھا۔ امریکا میں بھارت کا نقطہ نظر پوری طرح حاوی تھا، ہم نے امریکا کو کشمیر کی صورتحال سے آگاہ کیا اور بتایا کہ اگر کشمیر کا مسئلہ حل نہ ہوا تو یہ فلیش پوائنٹ ہے، صدرٹرمپ نے کشمیر پر ثالث کا کردار ادا کرنے کا کہا، گھٹن اور جبر کا ماحول تھا، دورے کے بعد دباؤ، تعاون میں تبدیل ہوا ہے۔ وزیر خارجہ نے بتایا کہ امریکا کی پہلی ترجیح افغانستان ہے، ہم آج "پرابلم نہیں، سلوشن " ہیں۔
پاکستان اور امریکا کے تعلقات کے حوالے سے واشنگٹن سے مستند تجزیہ کار، شجاع نواز نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بڑی اچھی شروعات ہوئی ہیں، وزیر اعظم اور صدر ٹرمپ کے درمیان یک جہتی تھی، انہوں نے کہا کہ بھارت کو افغانستان کے معاملے سے بھی الگ کر دیا گیا اور بھارت کو سب سے بڑی ٹھوکر مسئلہ کشمیر پر لگی ہے، امریکی صدر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ بھارتی وزیر اعظم مودی نے ان سے کہا ہے کہ وہ کسی طرح سے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے میں شامل ہوں۔
افغان امور کے ماہر معروف تجزیہ کار احمد رشید نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکا ہر حال میں افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے وزیر اعظم عمران خان کو اسی مقصد کے لئے دورے کی دعوت دی گئی تھی، میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کا طالبان پر کافی اثر ہے، انھوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ افغانستان سے نکلنا چاہتے ہیں لیکن امریکی محکمہ خارجہ اور محکمہ دفاع کا موقف ہے کہ امریکا خالی ہاتھ نہیں نکل سکتا۔ امریکا 19 سال کے بعد بہت تنگ ہے وہ ہر سال افغان فوج اور معیشت کے لئے 5 ارب ڈالر دے رہا ہے اسے نکلنا ہی ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان اور امریکا اس بارے ایک لائن پر آگئے ہیں۔