سبز بیلٹ پیپر، چار رنگوں کی ٹوکریاں، رازداری کیلئے دہری تہہ

Last Updated On 02 August,2019 08:58 am

اسلام آباد: (اسلم لُڑکا، الماس حیدر نقوی) چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے موقع پر خفیہ رائے شماری کے غیر متوقع نتائج نے اپوزیشن بینچوں میں مایوسی پھیلا دی، اپوزیشن ارکان ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے 14 ارکان کو آنکھوں ہی آنکھوں میں ڈھونڈتے رہے، جبکہ حکومتی بینچوں پر جشن کا سماں رہا، ووٹنگ سے قبل خالی بیلٹ باکس ارکان کو دکھایا گیا، حروف تہجی کے تحت ارکان کو ووٹنگ کیلئے پکارا گیا۔

پہلا ووٹ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر حافظ عبدالکریم نے جبکہ آخری ووٹ حکومتی سینیٹر ولید اقبال نے کاسٹ کیا، ووٹنگ سے قبل صادق سنجرانی ایوان میں پہنچے تو اپوزیشن رہنماؤں کے ساتھ گرم جوشی سے مصافحہ کیا۔ سنجرانی، رضا ربانی، جاوید عباسی اور میر حاصل بزنجو سے گلے ملے، رضا ربانی نے سنجرانی کو قائد ایوان کے ساتھ والی نشست پر بٹھا دیا، مہمان گیلری میں وزیر دفاع پرویز خٹک، ڈپٹی سپیکر قاسم سوری، جام کمال، بلاول بھٹو، راجہ پرویز اشرف، میاں افتخار، قمر زمان کائرہ، چودھر ی منظور حسین، سحر کامران موجود رہے۔

پانچ سینیٹرز کے ووٹ ڈالے جانے کے بعد پر یذا ئیڈنگ آفیسر نے سینیٹرز کو ہدایت کی کہ وہ بیلٹ پیپر کی دہری تہہ لگائیں تاکہ رازداری برقرار رہے، چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے موقع پر حکومتی سینیٹرز نے شدید نعرہ بازی کی جبکہ ایک رکن نے ایک زرداری سب پر بھاری کے نعرے لگانے شروع کرد ئیے، اس دوران اپوزیشن ارکان ٹولیوں کی شکل میں گفتگو کرتے رہے، اپوزیشن نے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا کے خلاف حکومتی تحریک عدم اعتماد کی ووٹنگ کا بائیکاٹ کر دیا، صرف پانچ سینیٹرز پروفیسر ساجد میر، پیپلزپارٹی کے سینیٹر سلیم مانڈوی والا، سینیٹر روبینہ خالد، سینیٹر محمد علی جاموٹ اور قراۃ العین مری نے ووٹ کاسٹ کیا۔

سینیٹر شمیم آفریدی بیلٹ پیپر لئے بغیر پولنگ بوتھ کی طرف چلے گئے انہیں واپس بلایا گیا، صادق سنجرانی نے 57 ویں نمبر پر ووٹ کاسٹ کیا، اپوزیشن لیڈر راجہ محمد ظفر الحق نے 64 ویں نمبر پر ووٹ کاسٹ کیا، میر حاصل بزنجو نے 25 ویں نمبر پر ووٹ کاسٹ کیا، سینیٹر محمد علی سیف نے 49 ویں نمبر پر ووٹ کاسٹ کیا، پریذائیڈنگ آفیسر اور عثمان خان کاکڑ کے درمیان تلخ کلامی ہوئی۔ پریذائیڈنگ آفیسر نے کہا کہ آپ ووٹر کو اس کے حق رائے دہی سے روک نہیں سکتے، چار مختلف کلرز کی ٹوکریوں میں بیلٹ پیپرز رکھے گئے، بیلٹ پیپر کارنگ ہلکا سبز تھا، گنتی مکمل ہوئی تو ایوان میں صادق سنجرانی سب پے بھاری کے نعرے لگنے لگے۔