لاہور: (تجزیہ : سلمان غنی) کشمیر جیسے سلگتے مسئلہ کے حل کیلئے ثالثی پر صدر ٹرمپ کی تکرار، پاکستان کا اصرار اور بھارت کا انکار بہت کچھ سمجھنے کیلئے کافی ہے۔ صدر ٹرمپ نے پہلے تو ثالثی کی بات ایک سوال کے جواب میں کہی اور اب انہوں نے ایک مرتبہ پھر امریکی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے اس امر پر زور دیا کہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر پر ثالثی کیلئے تیار ہیں۔ یہ امر ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ کو اب مسئلہ کشمیر کی اہمیت کا احساس ہو چکا ہے کیونکہ یہاں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کی رپورٹس سے امریکہ پر دباؤ بڑھ رہا تھا اور امریکہ سمجھتا ہے کہ افغانستان میں امن عمل کے دیر پا ہونے کا انحصار بھی اس خطہ میں امن کے قیام پر ہے اور خطہ میں دیر پا امن کیلئے مسئلہ کشمیر کا حل ضروری ہے۔ لیکن بھارتی وزیر اعظم اب ٹرمپ کی پیشکش پر پر اسرار خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں جس کی وجہ ان پر آنیوالا اندرونی دبائو ہے اور بھارت بری طرح فرسٹریشن کا شکار ہے۔ اس نے ایک جانب جہاں مقبوضہ وادی میں مزید 28 ہزار فوجی اہلکار بھجوانے کا اعلان کیا ہے تو دوسری جانب لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک نئی صورتحال طاری کرنے کی کوشش کی ہے اور بھارت یہ تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں کہ سیاسی مسائل کا کبھی بھی طاقت سے حل نہیں نکل پاتا۔
ایسا ہوتا تو افغانستان میں ایک لاکھ 40 ہزار کے قریب امریکی اور نیٹو فوجی اہلکاروں پر مشتمل افواج یہاں اپنا تسلط قائم کرسکتی تھیں لیکن وہ ناکام رہیں اور آخرکار انہیں بھی طالبان کیساتھ مذاکرات کی میز پر آنا پڑا۔ ہر آنے والے دن میں کشمیریوں کی تحریک دبنے کی بجائے مضبوط اور موثر ہوئی ہے، جلد یا بدیر بھارت کو مذاکرات کی میز پر آنا پڑے گا البتہ امریکی پیشکش نہ مان کر بھارت نے انہیں بھی یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ بھارت کا کشمیر پر کوئی کیس ہوتا تو وہ ثالثی سے گریز کی پالیسی اختیار نہ کرتا ادھر کشمیر کے اندر صدر ٹرمپ کی اس پیشکش کے بعد تحریک میں مزید جان پیدا ہوئی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے کشمیر کی بین الاقوامی اہمیت ، حیثیت بڑھی ہے۔
جہاں تک ثالثی کے اس کردار پر پاکستان کی تائید اور اصرار کا تعلق ہے تو پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ اس کا کشمیر پر ایک مضبوط کیس ہے جو وہ بین الاقوامی سطح پر ہر پلیٹ فارم پر موثر انداز میں پیش کر سکتا ہے۔ لیکن بھارت اس پر خوفزدہ ہے کیونکہ یہ واحد ایشو ہے کہ اس پر اقوام متحدہ کی 18 قراردادیں موجود ہیں اور سوڈان ،مشرقی تیمور اور اریٹیریا میں استصواب رائے کا حق ملنے کے بعد اس امر کا قوی امکان ہے کہ مسئلہ کشمیر بھی اسی طرح حل ہوسکتا ہے۔ دوسری طرف بھارت کی ضد اور ہٹ دھرمی پر کون اسکے ساتھ کھڑا ہوگا یہ سوچنا اب عالمی قوتوں اور عالمی برادری کی ذمہ داری ہے اور عالمی قوتیں عالمی امن کے قیام میں اسی وقت سرخرو ہوں گی جب اس مسئلہ کا کوئی حل نکال پائیں گی۔ بھارت سمجھتا ہے کہ کسی بین الاقوامی دباؤ کے نتیجہ میں کشمیریوں کو اپنے مستقبل کے تعین کا حق نہ مل جائے اور اسی پر خوفزدہ ہو کر اس نے صدر ٹرمپ کی جانب سے ثالثی کی پہلی پیشکش پر 10 ہزار فوجی اہلکاراور اب دوسری پیشکش پر 23 ہزار فوجی اہلکار مزید بھجوانے کا اعلان کیا ہے، مساجد اور مدرسوں کو ٹارگٹ کرنے کا فیصلہ ہوا ہے اور ہندوؤں کی آباد کاری کیلئے اقدامات شروع کر دئیے ہیں۔ لہٰذا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہندوستان اپنا تسلط قائم رکھ پائے گا۔
کشمیر کی صورتحال پر گہری نظر رکھنے والے کشمیر کی صورتحال کو افغانستان میں امن عمل کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں جن کا کہنا ہے کہ بھارت افغانستان میں امن عمل کی کامیابی اور امریکی افواج کے انخلا سے سخت خوفزدہ ہے اور سمجھتا ہے کہ اگر افغانستان میں امن قائم ہو گیا، امریکی افواج چلی گئیں تو پھر افغانستان کی جدوجہد کا رخ کشمیر کی طرف ہو سکتا ہے اور بھارت کو یہاں لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں اس بنا پر افواج میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کیا بھارت اپنے پلان میں کامیاب ہو سکے گا۔ اس کا انحصار آنے والے چند ماہ پر ہوگا لیکن خود بھارت کے اندر سے یہ آوازیں اٹھنا شروع ہوگئی ہیں کہ بھارت مسائل کا سیاسی حل نکالے ورنہ کشمیر پر تسلط تو قائم نہیں ہوگا، الٹا کشمیر نریندر مودی سرکار کے گلے پڑ سکتا ہے۔